حامد میر:صحافت پر کوئی سمجھوتہ نہیں

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 07-06-2021
کوئی سمجھوتہ نہیں
کوئی سمجھوتہ نہیں

 

 

 اسلام آباد :پاکستان کے ممتاز صحافی حامد میر ایک بار پھر سرخیوں میں ہیں ،اس بار ان کا ٹکراو براہ راست پاکستانی فوج کے ساتھ ہے۔جس کے سبب انہیں جیو ٹی وی کے مقبول پروگرام کیپٹل ٹاک سے الگ کردیا گیا ہے بلکہ روزنامہ جنگ نے بھی ان کے کالم روک دئیے ہیں ۔ بہرحال حامد میر نے ایک بار پھر حکومت اور فوج کو آئینہ دکھایا ہے کہ اگر صحافیوں کی زبان بند کرنی ہے تو ان پر مظالم کا سلسلہ بند کیا جائے۔انہوں نے کہا ہے کہ مجھے ’جیو ٹی وی ‘ پر دوبارہ جلوہ افروز ہونے کا کوئی شوق نہیں ۔ حامد میر نے کہا کہ جیو ٹی وی کہہ رہا ہے کہ مجھے برخاست نہیں کیا گیا ہے،اگر مجھے پروگرام نہیں کرنے دیا جارہا ہے تویہ کیا ہے؟ اس قدم کو کیا کہیں گے؟حد تو یہ ہوگئی کہ پاکستان کے سب سے بڑے اردو اخبار‘ جنگ’ گروپ نے حامد میر کا ہفتہ وار کالم بھی شائع نہیں کیا۔

 بقول حامد میر ایسا تو اس وقت بھی ہوا تھا جب سابق فوجی صدر پرویز مشرف نے انہیں کنارے لگایا تھا۔ اب 2021 میں عمران خان حکومت نے ٹی وی اسکرین سے ہٹایا ہے۔ لیکن اس مرتبہ ایک فرق ہے،اس وقت میں جیو ٹی وی کی اسکرین سے غائب ہوا تھا لیکن روزنامہ جنگ میں کالم لکھتا رہا تھا۔لیکن عمران خان کے دور میں ٹی وی اسکرین سے بھی ہٹایا گیا اور اخبار سے بھی۔

 اب جیو ٹی وی کا شو ’کیپٹل ٹاک‘ سلطان صاحب کررہے ہیں لیکن کیاآپ یہ سمجھ رہے نہیں میں اس میں واپسی کےلئے بے تاب ہوں۔ کبھی نہیں۔ایسی کوئی بات نہیں ہے۔

قصہ تنازعہ کا

بات اگر اس بیان کی کریں جو حامد میر نے ایک صحافی کو آئی ایس آئی کے ہاتھوں نشانہ بنائے جانے کے خلاف احتجاج کے موقع پر کہی تھی تو حامد میر کا کہنا ہے کہ ۔میں نے جیو ٹی وی کے انتظامیہ کو بتادیا تھا کہ میں نے جو کچھ کہا ہے وہ ایک الگ پلیٹ فارم سے کہا ہے۔ وہ میری ذاتی رائے ہے۔ جس کےلئے میں جیو ٹی وی کا پلیٹ فارم استعمال نہیں کیا۔میں نے ایسا کچھ جنگ میں بھی نہیں لکھا۔پھر مجھے کیوں ہٹا دیا گیا۔

دباو کا مطلب میں درست تھا

 انتظامیہ کا کہنا تھا کہ اس پر دباو ہے،جس پر میں نے جواب دیا کہ اس کا مطلب یہی ہے کہ میں نے جو بات کہی ہے وہ درست ہے۔اس کا مطلب یہ درست ہے کہ میڈیا پر سینسر شپ ہے،صحافیوں کو دھمکیاں دی جارہی ہیں۔ بلیک میل کیا جارہا ہے۔انتظامیہ کا کہنا ہے کہ ادارہ بند ہوجائے گا جیسے 2014 میں ہوا تھا۔ کھیل کہیں اور کا ہے

 اب میرے ادارے یا گروپ کے لوگ وزیر اعظم عمران خان سے مل کر آئے ہیں۔اچھی میٹنگ ہوئی۔ عمران خان نے میرے بارے میں کوئی بات نہیں کی۔اس سے ثابت ہوتاہے کہ میرا معاملہ عمران خان سے ہے نہ وزیر داخلہ سے ۔یہ تو کہیں اور کے اشارے پر ہوا ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اگر میں نے کوئی بات جی ٹی وی کہی نہ جنگ میں لکھی تو پھر یہ ادارہ مجھ سے کیا سوال کرسکتا ہے اور کیوں؟

جیو پر واپسی کی خواہش نہیں

میں اپنے مداحوں کا شکر گزار ہوں۔میں اپنی صحافتی برادری اورسوشل ورکرز اور سول سوسائٹی کے رضا کاروں کا بھی شکر گزار ہوں۔ جو اس با ت کا زور دے رہے ہیں کہ مجھے جیو ٹی وی پر بحال کیا جائے ۔مگر میں آپ کو بتا دوں کہ کسی بھی طرح کے سمجھوتہ کے بعد جیو ٹی وی پر اپنی شکل دکھانا پسند نہیں کروں گا۔میری ایسی کوئی دلچسپی نہیں کہ میں‘ جیو ٹی وی’ پردوبارہ نظر آوں یا جنگ میں لکھوں۔ میں تو بس یہ چاہتا ہوں کہ آپ صحافیوں پرنشانہ لگانا بند کریں ۔ صحافیوں پر پابندیاں عائد کرنا بند کریں۔جیو ٹی وی پر واپسی میرے لئے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔جنگ میں کالم کوئی خواہش نہیں ہے۔ میرا اصل مسئلہ یہ ہے کہ ’بس بہت ہوگیا۔بہت مار لیا اور تکلیف پہنچا لی۔ آپ اگر تکلیف پہنچانا بند کر دیں تو ہم بھی اپنی زبان بند کرلیں گے۔