قاتلوں کی خوف سے فرضی نام کے ساتھ دہلی میں رہنا پڑا: شیخ حسینہ

Story by  اے ٹی وی | Posted by  [email protected] | Date 04-09-2022
قاتلوں کی خوف  سے فرضی نام کے ساتھ دہلی میں رہنا پڑا: شیخ حسینہ
قاتلوں کی خوف سے فرضی نام کے ساتھ دہلی میں رہنا پڑا: شیخ حسینہ

 

 

نئی دلی :بنگلہ دیش کی وزیراعظم شیخ حسینہ واجد نے انڈیا کے چار روزہ دورے کے دوران اپنی زندگی کے چند اہم پہلوؤں پر سے پردہ اٹھاتے ہوئے بتایا کہ وہ اپنے والد کے قاتلوں سے بچنے کے لیے فرضی شناخت کے ساتھ دہلی میں پناہ لیے ہوئے تھیں۔

نیوز ایجنسی اے این آئی کو دیے گئے ایک جذباتی انٹرویو میں شیخ حسینہ نے سنہ 1975 کے درد انگیز واقعات کو دہراتے ہوئے کہا کہ 30 جولائی کو جب وہ اپنے والدین کو الوداع کہہ کر جرمنی کے لیے روانہ ہو رہی تھیں تو انہیں بالکل یہ اندازہ نہیں تھا کہ یہ آخری ملاقات ہو گی۔ شیخ حسینہ واجد کے شوہر اس وقت جرمنی میں نیوکلییئر سائنسدان تھے جبکہ وہ شادی کے بعد اپنے والدین کے گھر میں تین بہن بھائیوں کے ہمراہ رہ رہی تھیں۔

میرے تمام بہن بھائی ان کے شریک حیات، میرے والد اور والدہ سب مجھے ایئر پورٹ پر چھوڑنے آئے۔ میں اپنے ماں باپ سے بھی ملی، لیکن حقیقت میں یہ ان سے ملاقات کا آخری دن تھا۔‘ اس ملاقات کے دو ہفتے بعد ہی 15 اگست کی صبح شیخ حسینہ کو خوفناک خبر ملی کہ ان کے والد کا قتل ہو گیا ہے۔ لیکن یہ خبر صرف والد کی ہلاکت تک ہی محدود نہ تھی بلکہ فیملی کے مزید افراد کو بھی قتل کیا گیا تھا۔

‘یہ انتہائی ناقابل یقین تھا۔ ناقابل یقین کہ کوئی بھی بنگالی ایسا کر سکتا ہے۔ اور ہمیں ابھی تک معلوم نہیں ہے کہ اصل میں کیا ہوا تھا۔‘ عوامی لیگ کی سربراہ شیخ حسینہ نے بھری ہوئی آنکھوں سے بتایا ’فوجی بغاوت ہوئی اور پھر ہم نے سنا کہ میرے والد کو قتل کر دیا گیا ہے۔ لیکن ہمیں یہ معلوم نہیں تھا کہ فیملی کے تمام افراد کو قتل کیا گیا ہے

ان کا کہنا تھا کہ اس دوران مدد کی پیشکش کرنے والا پہلا ملک انڈیا تھا۔ ’اندرا گاندھی نے فوری پیغام بھیجا کہ وہ ہمیں سکیورٹی اور پناہ دینا چاہتی ہیں۔ یوگوسلاویہ کے مارشل ٹیٹو نے بھی پیغام بھیجا تھا۔ لیکن ہم نے دہلی جانے کا فیصلہ کیا کیونکہ ہمارے ذہن میں یہی تھا کہ دہلی سے واپس اپنے ملک جانا آسان ہوگا اور یہ بھی معلوم ہو سکے گا کہ فیملی کے کتنے افراد زندہ ہیں۔

اس دل دہلا دینے والے واقعے کو گزرے پچاس سال بیت چکے ہیں لیکن آج بھی اس پر بات کرتے ہوئے شیخ حسینہ کی آواز میں درد جھلکتا ہے۔ اس وقت بنگلہ دیش کے جرمنی میں تعینات سفیر ہمایوں رشید پہلے شخص تھے نے جنہوں نے شیخ مجیب الرحمان اور اہل خانہ کے قتل کا واقعہ بیان کیا تھا۔ ’کچھ دیر کے لیے مجھے معلوم ہی نہیں تھا کہ میں کہا ہوں۔ پھر مجھے اپنی بہن کا خیال آیا جو مجھ سے دس سال چھوٹی ہے کہ وہ اس سارے واقعے کو کس طرح سے سہہ سکے گی۔ اس کے لیے تو بہت ہی زیادہ مشکل تھا۔‘

شیخ حسینہ نے بتایا کہ جب وہ دہلی آئیں تو پہلے انہیں سکیورٹی کے حصار میں ایک گھر میں رکھا گیا۔ انہوں نے بتایا کہ جو لوگ ان کے والد کے قتل میں ملوث تھے انہوں نے دیگر رشتہ داروں کے گھروں پر بھی حملے کیے اور کچھ کو قتل بھی کیا۔ ’تقریباً اٹھارہ لوگ جن میں رشتہ دار، کچھ ملازم اور ان کے بچے، چند مہمان اور میرے انکل شامل ہیں کو قتل کیا گیا۔

سازش کرنے والوں کا مقصد واضح تھا کہ بنگا بندھو کے خاندان میں سے کوئی بھی دوبارہ اقتدار میں نہ آ سکے۔ ’میرا چھوٹا بھائی صرف دس سال کا تھا، انہوں نے اس کو بھی نہیں چھوڑا۔ ہم غالباً 24 اگست کو دہلی آئے جب میری ملاقات وزیر اعظم اندرا گاندھی سے ہوئی۔ انہوں نے ہمیں بلایا تھا اور تب ہمیں معلوم ہوا کہ کوئی بھی زندہ نہیں بچا۔‘

شیخ حسینہ نے بتایا کہ اندرا گاندھی نے ان کے لیے تمام انتظامات کیے تھے، شوہر کے لیے نوکری کا بھی بندوبست کیا اور پنڈارا روڈ پر واقع ایک گھر میں رہائش دی۔ ’شروع کے دو تین سال تو بہت ہی مشکل تھے اور یہ سب قبول کرنا بھی۔ میرا بیٹا صرف چار سال کا تھا، بیٹی بھی چھوٹی تھی۔ دونوں بہت زیادہ روتے تھے اور میری والدہ اور والد کے پاس جانے کا کہتے تھے۔‘ لیکن اس سب کے باوجود شیخ حسینہ نے سوچا کہ اس طرح تو ساری زندگی نہیں گزاری جا سکتی، کچھ تو کرنا ہوگا۔ ’درد تو نہیں جاتا۔۔۔ جرم صرف یہ ہی نہیں تھا کہ میرے والد کو قتل کیا بلکہ ہماری آزادی کی جنگ کا نظریہ بھی بدل کر کے رکھ دیا۔

صرف ایک رات میں سب بدل کر رہ گیا۔ اور وہ قاتل ہمیں پھر بھی خوفزدہ کرتے رہے۔ وہ ہمارے تعاقب میں تھے کہ ہم کہاں رہتے ہیں۔ تو ہم مختلف نام کے ساتھ پنڈارا روڈ پر رہ رہے تھے۔‘ عوامی لیگ کی رہنما کا کہنا تھا کہ یہ انتہائی درد ناک بات ہے آپ کو اپنی شناخت اور نام چھپانا پڑے۔

شیخ حسینہ عوامی لیگ کی سربراہی ملنے کے بعد مئی 1981 کو بنگلہ دیش واپس لوٹیں۔ اس وقت حالات کچھ حد تک بدل چکے تھے۔ شیخ حسینہ تین مرتبہ اپوزیشن لیڈر اور تین ہی مرتبہ وزیراعظم بن چکی ہیں۔