جنرل قمر جاوید باجوہ توسیع نہیں لیں گے: ترجمان فوج

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 14-04-2022
جنرل قمر جاوید باجوہ توسیع نہیں لیں گے: ترجمان فوج
جنرل قمر جاوید باجوہ توسیع نہیں لیں گے: ترجمان فوج

 

 

 :اسلام آبا د ::پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل بابر افتخار نے مسلح افواج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کی افواہوں کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’آرمی چیف توسیع نہیں لیں گےا

ساتھ ہی انہوں نے ’فوج کو سیاست سے دور رکھنے‘ کی بھی درخواست کی۔ جمعرات کو ایک پریس کانفرنس کے دوران ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا: ’عوام اور سیاسی پارٹیوں سے درخواست ہے کہ فوج کو سیاست میں نہ گھسیٹیں۔ نہ یہ مہم پہلے کامیاب ہوئی تھی اور نہ اب ہوگی۔ 

سب انفرادی اور اجتماعی طور پر کردار ادا کریں گے تاکہ تمام چیلنجز کا سامنا کرسکیں۔‘ پریس کانفرنس کے دوران میجر جنرل بابر افتخار نے 12 اپریل کو ہونے والی فارمیشن کمانڈرز کانفرنس کی تفصیلات بتائیں اور کہا: ’آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی زیر صدارت فارمیشن کمانڈر کانفرنس میں تمام کمانڈرز نے شرکت کی،

کانفرنس کے شرکا کو پاکستان آرمی کی ہپیشہ ورانہ صلاحیتوں کے حوالے سے درپیش چیلنجز پر سکیورٹی اور انٹیلی جنس بریفنگ دی گئی اور ان سے نمٹنے کے لیے وضع کی گئی حکمت عملی سے آگاہ کہا گیا۔‘ انہوں نے کہا: ’فارمیشن کمانڈرز نے اس بات پر اتفاق کیا کہ جمہوریت، اداروں کی مضبوطی اور سب اداروں کے آئین کے دائرے میں رہتے ہوئے کام کرنا ہی سب کے مفاد میں ہے۔‘ ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ افواج پاکستان اور ان کی قیادت کے خلاف مہم چلائی جارہی ہے۔

ڈیپ فیک ٹیکنالوجی کے ذریعے سینیئر افسران کی ویڈیوز چلائی جارہی ہیں، یہ غیر اخلاقی ہے۔ انہوں نے مزید کہا: ’جو کام دشمن سات دہائیوں میں نہیں کرسکا، وہ اب بھی نہیں ہونے دیں گے۔‘ ان کا مزید کہنا تھا: ’عوام کی حمایت ہی قومی سلامتی کا منبع ہے۔ کوئی بھی دانستہ یا نادانستہ کوشش جو پاکستانی عوام اور فوج میں دراڑ ڈالنے کا باعث بنے، ناقابل قبول ہے اور بے بنیاد کردار کشی کسی بھی صورت نامناسب ہے۔‘ اس سے قبل 12 اپریل کو آرمی چیف قمر جاوید باجوہ نے بھی کہا تھا کہ ’بعض گمراہ کن عناصر حالیہ دنوں میں پروپیگنڈا مہم کے ذریعے فوج اور سوسائٹی کے درمیان خلیج پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘

سربراہ پاکستان فوج کی زیر صدارت فارمیشن کمانڈرز کانفرنس میں فارمیشن کمانڈرز نے آئین اور قانون کی حکمرانی کو ہر قیمت پر برقرار رکھنے کے عسکری قیادت کے فیصلے پر بھرپور اور مکمل اعتماد کا اظہار کیا تھا۔

راولپنڈی: پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل بابر افتخار کا کہنا ہے کہ نیشنل سیکیورٹی کمیٹی کے اعلامیے میں سازش کا لفظ نہیں ہے، ڈیمارش صرف سازش پر نہیں دیے جاتے اور بھی وجوہات ہوتی ہیں۔

پریس کانفرنس میں ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ ایک روز قبل فارمیشن کمانڈرز نے ملکی سلامتی کے حوالے سے لیےگئے اقدامات بالخصوص اندرونی سکیورٹی اور آئین و قانون کی بالادستی کو پیش نظر رکھنے پر مکمل اعتماد کا اظہار کیا اور اسے درست سمت میں بہترین قدم قرار دیا، سب نے اتفاق کیا کہ جمہوریت اور اداروں کی مضبوطی ، قانون کی بالادستی اور سب اداروں کا آئین کے دائرہ کار میں رہنا ملکی مفاد میں ہے، دہشت گردی کے خلاف جنگ آخری دہشت گرد کے خاتمے تک جاری رہے گی ، سال کے پہلے تین ماہ 128دہشت گرد ہلاک اور 270گرفتار کیے گئے، پاک فوج کے 168افسران جوان عالمی سطح پر امن کوششوں میں جانوں کا نذرانہ پیش کرچکے ہیں۔ فوجی ترجمان نے آرمی چیف کی وزیراعظم کی تقریب حلف برداری میں شرکت نہ کرنے پر وضاحت کردی

ڈی جی آئی ایس پی آر نےکہا کہ 9 اپریل کی رات وزیراعظم ہاؤس میں آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی کی اُس وقت کے وزیراعظم عمران خان سے کوئی ملاقات نہیں ہوئی، اس حوالے سے سب باتیں جھوٹ ہیں ، بی بی سی نے بہت ہی واحیات اسٹوری شائع کی، اس سے بڑا جھوٹ کسی انٹرنیشنل لیڈنگ ایجنسی کی طرف سے نہیں ہوسکتا، یہ ایک مکمل من گھڑت اسٹوری تھی۔

 ایک سوال کے جواب میں میجر جنرل بابر افتخار کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ ہاؤس میں صدر کے چیمبر میں دو اعلیٰ افسران کی ملاقات سے متعلق مجھے کوئی علم نہیں، عوام اور سیاسی جماعتوں سے درخواست ہے فوج کو سیاست میں نہ گھسیٹیں، ہمیں اس معاملے سے باہر رکھا جائے۔

 عمران خان کو اسٹیبلشمنٹ نے کوئی آپشن نہیں دیا تھا:ڈی جی آئی ایس پی آر

انہوں نے مزید کہا کہ عمران خان کو اسٹیبلشمنٹ نے کوئی آپشن نہیں دیا تھا، ڈیڈ لاک کے دوران وزیراعظم آفس سے آرمی چیف سے رابطہ کیا گیا کہ بیچ بچاؤ کی بات کریں، ہماری سیاسی جماعتوں کی قیادت آپس میں بات کرنے پر تیار نہیں تھی جس پر آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی وہاں گئے، مختلف رفقاء سے بیٹھ کر تین چیزیں ڈسکس ہوئیں کہ کیا کیا ہوسکتا ہے، ان میں وزیراعظم کا استعفیٰ، تحریک عدم اعتماد واپس لینا اور وزیراعظم کی طرف سے اسمبلیاں تحلیل کرنے کا آپشن تھا۔

ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ تیسرے آپشن پر وزیراعظم نے کہا کہ یہ قابل قبول ہے، ہماری طرف سے اپوزیشن سے بات کریں جس پر آرمی چیف پی ڈی ایم کے پاس گزارشات لے کر گئے اور ان کے سامنے یہ گزارش رکھی جس پر سیر حاصل بحث ہوئی لیکن اپوزیشن نے اس پر کہا کہ ہم ایسا قدم نہیں اٹھائیں گے۔ 

پاکستان میں کبھی مارشل لاء نہیں آئے گا: ترجمان پاک فوج ترجمان پاک فوج نےکہا کہ پاکستان کی بقاصرف اور صرف جمہوریت میں ہے اور اس کا دفاع کرنا سب کا فرض ہے، انفرادی بھی اور اجتماعی بھی اور اس کی طاقت پارلیمنٹ ، سپریم اور مسلح افواج ہیں اور جمہوریت نے ہی پاکستان کو آگے لے کر جانا ہے، انشاءاللہ پاکستان میں کبھی مارشل لاء نہیں آئے گا۔

 ان کا کہنا تھا کہ افواہوں کی بنیاد پر بے بنیاد کردار کشی کرنا کسی صورت قابل قبول نہیں ، یہ ملک کے مفاد کے سراسر خلاف ہے ، فوج کو سیاست میں مت گھسیٹیں ، نہ یہ مہم پہلے کامیاب ہوئی نہ اب ہوگی ، ہماری انٹیلی جنس ایجنسیاں دھمکیوں کے خلاف دن رات کام کررہی ہیں ، پاکستان کی طرف کسی نے بھی میلی آنکھ سے دیکھا تو اسے نکال دیں گے ، نیشنل سکیورٹی کمیٹی کے اعلامیے میں سازش کا لفظ نہیں ہے، اعلامیے میں لکھا ہوا ہے کہ غیرسفارتی زبان استعمال کی گئی۔

ایک سوال کے جواب میں ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ ہمارا سیاست سے کوئی لینا دینا نہیں، نیوٹرل وغیرہ کوئی چیز نہیں، کوئی ضمنی انتخاب کوئی بلدیاتی انتخاب اٹھالیں، کوئی مداخلت نہیں، پہلے کہا جاتا تھا کالز آتی ہیں، اگر کوئی ثبوت ہے کہ ہم نے مداخلت کی تو سامنے لائیں، انتشار کے لیے ریٹائرڈ افسران کے جعلی آڈیو پیغام پھیلائے جارہے ہیں، پروپیگنڈا کرنے والوں کے خلاف متعلقہ ادارے کارروائی کررہے ہیں۔

آرمی چیف 29 نومبر 2022 کو ریٹائر ہوجائیں گے: میجر جنرل بابر افتخار

میجر جنرل بابر افتخار نے کہا کہ آرمی چیف نہ تو مدت میں توسیع طلب کررہے ہیں اور قبول کریں گے، آرمی چیف اس سال 29 نومبر 2022 کو ریٹائر ہوجائیں گے، آرمی چیف کی اپوزیشن سے پاکستان یا بیرون ملک ملاقاتوں کی باتوں میں کوئی صداقت نہیں ۔

شہباز شریف کی بطور وزیراعظم تقریب حلف برداری میں آرمی چیف کے شریک نہ ہونے کے سوال پر ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ آرمی چیف کی اس روز طبیعت ٹھیک نہیں تھی، وہ آفس بھی نہیں آئے تھے۔

- فوجی اڈوں کا کسی سطح پر مطالبہ نہیں کیا گیا، میجر جنرل بابر افتخار ایک سوال کے جواب میں ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ امریکا کی جانب سے فوجی اڈوں کا کسی سطح پر مطالبہ نہیں کیا گیا، اگر مطالبہ ہوتا تو جواب انکار میں ہی ہوتا، ملک کے ایٹمی اثاثے محفوظ ہیں، ایٹمی ہتھیاروں سے متعلق بات کرتے ہوئے محتاط رہنا چاہیے، ایٹمی اثاثےکسی ایک سیاسی قیادت سےمنسلک نہیں، اب تک جتنی حکومتیں آئیں ایمانداری سے انہوں نے اسےآگے بڑھایا، پاکستان کےایٹمی پروگرام کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔

 ان کا کہنا تھا کہ فوج میں کسی قسم کی تقسیم نہیں ،پوری فوج لیڈرشپ پر فخر کرتی ہے، فوج یونٹی آف کمانڈ پر چلتی ہے، جس طرف آرمی چیف دیکھتا ہے، سات لاکھ فوج ادھر دیکھتی ہے، فوج کسی کو این آر او دینے کی پوزیشن میں نہیں ہے، فوج مستقبل میں بھی آئینی کردار ادا کرتی رہے گی۔

 سوشل میڈیا مہم میں غیرملکی ہاتھ ملوث ہے:ڈی جی آئی ایس پی آر

انہوں نے مزید کہا کہ سوشل میڈیا مہم سےمتعلق بہت ساری معلومات آچکی ہیں، سوشل میڈیا کیلئے کچھ قانون ہیں،ان پر عمل کی ضرورت ہے، سوشل میڈیا پر چلنے والی مہم میں غیر ملکی ہاتھ ملوث ہے، آرمی چیف جس ادارے کے سربراہ ہیں وہ حکومت کے ماتحت ہے، فوج کے خلاف نازیبا زبان کا استعمال ملکی مفاد میں نہیں،ادارےکےسربراہ کے خلاف کوئی بات ہوئی توحکومت کی ذمہ داری ہے کہ کارروائی کرے،ہمیں اپنی سوسائٹی کوانسولیٹ کرنےکیلئے بہت مربوط اقدامات کرنے پڑیں گے، ہماری فوج ڈس انفارمیشن مہم کا بہت بڑا ٹارگٹ ہے، سوسائٹی کو سوشل میڈیاکے اثرات سے بچانے کیلئے بہت مربوط اقدامات کرنا ہوں گے۔

ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ جس دن وزیراعظم نے حلف لیا اسٹاک مارکیٹ میں اوپرگئی اور ڈالر نیچےگیا، یہ ایک طرح کامعاشی استحکام لگتاہے ، سی پیک بہت بڑا اسٹریٹجک پراجیکٹ ہے، ٹی ٹی پی سے کوئی مذاکرات نہیں ہورہے ، فوج نے ٹی ٹی پی کو کافی نقصان پہنچایا ہے۔