غزہ:اسرائیل اور اسلامی جہاد میں ’کمزور‘ جنگ بندی

Story by  اے ٹی وی | Posted by  [email protected] | 1 Years ago
غزہ:اسرائیل اور اسلامی جہاد میں ’کمزور‘ جنگ بندی
غزہ:اسرائیل اور اسلامی جہاد میں ’کمزور‘ جنگ بندی

 

 

غزہ : اسرائیل اور اسلامی جہاد کے عسکریت پسندوں کے درمیان مصر کی ثالثی میں ایک ’کمزور‘ جنگ بندی ہو گئی ہے۔  پیر کی صبح ہونے والی اس جنگ بندی نے اس حالیہ تنازعہ، جس میں 15 بچوں سمیت 44 فلسطینی ہلاک ہوئے ہیں، کے خاتمے کی امیدیں بڑھا دی ہیں۔ جنگ بندی جس کا باضابطہ آغاز اتوار کو رات 11:30 بجے ہوا، کا مقصد گزشتہ برس اسرائیل اور حماس کے درمیان 11 روزہ جنگ کے بعد اب غزہ میں ہونے والی بدترین لڑائی کو روکنا تھا

اگرچہ جنگ بندی سے پہلے اور بعد میں جنوبی اسرائیل میں سائرن بجنے کے ساتھ ہی حملوں اور راکٹ حملوں کا سلسلہ شروع ہوا۔

اسرائیلی قابض فوج نے غزہ میں اتوار کے رات ساڑھے آٹھ بجے سے ہونے والی جنگ بندی کے بعد خبردار کیا ہے کہ اسرائیل فوج غزہ پر ایک ایک زیادہ بڑا حملہ کرنے والی ہے۔ اسرائیلی فوج نے اپنے اس امکانی بڑے حملے کو وسیع دائرے میں غزہ کے عسکریت پسندوں پر حملے کا نام دیا ہے۔

اسرائیلی فوج کے اس بیان سے ذراہی پہلے اسرائیل نے اپنی طرف داغے گئے راکٹوں کا جواب دیا تھا۔ اسرائیلی فوج کے 8،33 منٹ پر رات کو دیے گئے ایک مختصر بیان میں کیا ہے کہ فوج وسیع اہداف کو سامنے رکھتے ہوئے اسلامی جہاد گروپ کو غزہ میں نشانہ بنائے گی۔'

تاہم کسی بھی فریق نے جنگ بندی کے چار گھنٹے بعد معاہدے کی کسی بڑی خلاف ورزی کی اطلاع نہیں دی۔ جنگ بندی شروع ہونے کے تین منٹ بعد اسرائیلی فوج نے ایک بیان میں کہا کہ ’اسرائیلی علاقے کی طرف فائر کیے جانے والے راکٹوں کے جواب میں، (فوج) فی الحال غزہ میں اسلامی جہاد سے تعلق رکھنے والے وسیع اہداف کو نشانہ بنا رہی ہے۔

اس کے بعد کے ایک اور بیان میں اسرائیلی فوج نے واضح کیا کہ اس نے ’آخری‘ حملہ رات 11:25 پر کیا تھا۔ دونوں فریقوں نے جنگ بندی پر اتفاق تو کر لیا ہے لیکن ساتھ ہی ایک دوسرے کو خبردار بھی کیا ہے کہ کسی بھی تشدد کا جواب طاقت سے دیا جائے گا۔

امریکی صدر جو بائیڈن نے جنگ بندی کا خیرمقدم کرتے ہوئے مصری صدر عبدالفتاح السیسی کا شکریہ ادا کیا کہ اس ثالثی میں ان کے ملک کا ہاتھ ہے۔ جو بائیڈن نے شہریوں کی ہلاکتوں کی تحقیقات کا بھی مطالبہ کیا،جسے انہوں نے ’المیہ‘ قرار دیا۔

انہوں نے ایک بیان میں کہا کہ پچھلے 72 گھنٹوں کے دوران امریکہ نے اسرائیل، فلسطینی اتھارٹی، مصر، قطر، اردن، اور دیگر کے ساتھ پورے خطے میں تنازعات کے فوری حل کی حوصلہ افزائی کے لیے کام کیا ہے۔ دوسری جانب اقوام متحدہ کے مشرق وسطیٰ کے امن مندوب ٹُور وینس لینڈ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’صورتحال اب بھی بہت نازک ہے، اور میں تمام فریقین سے جنگ بندی کی پابندی کرنے کی اپیل کرتا ہوں۔‘

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے حالیہ تنازع پر پیر کو ایک ہنگامی اجلاس طلب کیا ہے۔ چین جس کے پاس اس ماہ کونسل کی صدارت ہے، نے متحدہ عرب امارات کی درخواست کے جواب میں سیشن طے کیا ہے۔ اسرائیلی وزیراعظم یائر لاپڈ کے دفتر نے اتوار کی رات دیر گئے جنگ بندی پر رضامندی ظاہر کرتے ہوئے ’مصر کی کوششوں‘ کا شکریہ ادا کیا لیکن یہ کہا کہ ’اگر جنگ بندی کی خلاف ورزی کی جاتی ہے تو اسرائیل سخت جواب دینے کا حق برقرار رکھتا ہے۔

اسلامی جہاد کے رکن محمد الہندی نے پہلے ہی اس بات کی تصدیق کی تھی کہ عسکریت پسندوں نے جنگ بندی قبول کر لی ہے، لیکن گروپ نے ایک بیان میں مزید کہا کہ وہ بھی کسی بھی جارحیت کا ’جواب دینے کا حق محفوظ رکھتا ہے۔

اسرائیلی طیاروں نے جمعے سے غزہ میں اہداف کو نشانہ بنانا شروع کیا تھا، جبکہ ایران کے حمایت یافتہ فلسطینی جہادی گروپ نے جواب میں اسرائیل پر سینکڑوں راکٹ فائر کیے۔ سرحد پر ہونے والی لڑائی کے مکمل جنگ میں تبدیل ہونے کا خطرہ اس وقت تک موجود رہا جب تک جنگ بندی نہ ہوئی۔ اسرائیل کا کہنا ہے کہ ہلاک ہونے والوں میں سے کچھ غلط فائر کیے گئے راکٹوں سے مارے گئے۔