غزہ: امریکی وزیر خارجہ کی عرب ممالک سے بات چیت

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 17-05-2021
امریکا کی سفارتی کوشش
امریکا کی سفارتی کوشش

 

 

 آواز دی وائس: نئی دہلی

غزہ میں اسرائیل کے حملوں اور غزہ سے حماس کے حملوں نے خطہ میں ہلچل تو پیدا کی ہے بلکہ پوری عالمی برادری کو متحرک کردیا ہے۔ امریکی وزیر خارجہ انٹنی بلنکن نے اسرائیل، مغربی کنارے اور غزہ میں ہونے والے صورت حال پر سعودی عرب، قطر اور مصر کے وزرائے خارجہ سے ٹیلی فون پر گفتگو کی ہے۔

امریکی محکمہ خارجہ کے اتوار کو جاری کردہ بیان کے مطابق انٹنی بلنکن اور سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان کے درمیان ہونے والی گفتگو میں دونوں عہدیداروں نے غزہ، مغربی کنارے اور اسرائیل میں جاری کشیدگی میں کمی لانے اور تشدد کے خاتمے کے لیے کی جانے والی کوششوں پر تبادلہ خیال کیا۔

دونوں وزرائے خارجہ کے درمیان خطے اور فلسطین کی تازہ ترین صورت حال پر بھی بات چیت کی گئی ہے۔ قطری وزیر خارجہ شیخ محمد بن عبدالرحمن الثانی سے اپنی گفتگو میں دونوں عہدیداروں نے انسانی جانوں کے نقصان پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے مغربی کنارے سمیت غزہ اور اسرائیل میں امن کو بحال کرنے کی کوششوں کے حوالے سے بات چیت کی۔ قطری وزارت خارجہ کے بیان میں کہا گیا ہے کہ دونوں عہدیداروں نے الاقصی کمپاونڈ میں اسرائیل کی جانب سے عبادت گزاروں پر حملے اور غزہ کی پٹی پر کیے جانے والے حملوں پر بھی بات کی۔

بیان میں مزید کہا گیا کہ قطری وزیر خارجہ نے الاقصی اور غزہ پر اسرائیل کے بہیمانہ حملوں کو روکنے کے عالمی برادری سے کردار ادا کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ جبکہ مصری وزیر خارجہ سامع شکری کے ساتھ اپنی ٹیلی فونک گفتگو میں انٹنی بلنکن نے تمام فریقین سے کشیدگی میں کمی لانے اور تشدد کے خاتمے کے لیے امریکی کوششوں کا اعادہ کیا۔

امریکی محکمہ خارجہ کے بیان میں کہا گیا ہے کہ اس تنازعے میں اسرائیلیوں اور فلسیطنی شہریوں کی جانیں جا چکی ہیں جن میں بچے بھی شامل ہیں۔ اس حوالے سے مصر، قطر اور اقوام متحدہ کی جانب سے کی جانے والی کوششوں میں اب تک بظاہر کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی۔ دوسری جانب امریکی سینیٹرز کے ایک گرو کی جانب سے بھی جنگ بندی کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ ڈیموکریٹک جماعت کے سینیٹر کرس مرفی اور ری پبلکن جماعت کے ٹوڈ ینگ کا ایک بیان میں کہا تھا کہ 'حماس کے راکٹ حملوں اور اسرائیل کے جوابی حملوں میں دونوں اطراف کو سمجھنا ہو گا کہ بہت سی جانیں جا چکی ہیں اور انہیں کشیدگی میں اضافہ نہیں کرنا چاہیے۔'