اسرائیل اورفلسطینیوں کے درمیان تشدد کی لہر کے بعد اب ’’پرچم جنگ‘

Story by  اے ٹی وی | Posted by  [email protected] | Date 07-06-2022
اسرائیل اورفلسطینیوں کے درمیان تشدد کی لہر کے بعد اب ’’پرچم جنگ‘
اسرائیل اورفلسطینیوں کے درمیان تشدد کی لہر کے بعد اب ’’پرچم جنگ‘

 

 

  غزہ پٹی : اسرائیل اورمغربی کنارے کے مختلف حصوں میں کئی ہفتوں سے جاری تشدد کے بعد یہودی قوم پرستوں نے فلسطینیوں کے ساتھ اب’’پرچم جنگ‘‘ چھیڑ دی ہے اور انھوں نے سرخ، سبز، سیاہ اور سفید رنگوں کو نشانہ بنانا شروع کردیا ہے۔یہ چاروں رنگ فلسطینیوں کی اسرائیلی قبضے کے خلاف جدوجہد اور منفردشناخت کی علامت ہیں۔

یہ تنازع گذشتہ ہفتے اس وقت عروج پرپہنچ گیا جب اسرائیل میں جامعات سمیت سرکارکی مالی اعانت سے چلنے والے اداروں میں فلسطینی پرچم کی نمائش پر پابندی کا بل پارلیمنٹ میں پیش کیا گیا اور ارکان نے اس کو ابتدائی خواندگی میں منظور بھی کرلیا

 اسرائیل اورمغربی کنارے کے مختلف حصوں میں کئی ہفتوں سے جاری تشدد کے بعد یہودی قوم پرستوں نے فلسطینیوں کے ساتھ اب’’پرچم جنگ‘‘ چھیڑ دی ہے اور انھوں نے سرخ، سبز، سیاہ اور سفید رنگوں کو نشانہ بنانا شروع کردیا ہے

۔یہ چاروں رنگ فلسطینیوں کی اسرائیلی قبضے کے خلاف جدوجہد اور منفردشناخت کی علامت ہیں۔ یہ تنازع گذشتہ ہفتے اس وقت عروج پرپہنچ گیا جب اسرائیل میں جامعات سمیت سرکارکی مالی اعانت سے چلنے والے اداروں میں فلسطینی پرچم کی نمائش پر پابندی کا بل پارلیمنٹ میں پیش کیا گیا اور ارکان نے اس کو ابتدائی خواندگی میں منظور بھی کرلیا۔

اس بل کے حامی یہود قوم پرستوں کے نزدیک فلسطینی پرچم اٹھانا اشتعال انگیزی ہے اوریہ بعض یہودیوں کے مطابق ایک ’’دشمن‘‘وجود کی نمائندگی کرتا ہے۔

اسرائیل میں بہت سے فلسطینیوں کے لیے یہ بل ان اقدامات کی توثیق اور تسلسل ہی ہے جنھیں وہ اسرائیل میں اپنی شناخت مٹانے کی کوششوں کے طور پر دیکھتے ہیں۔

اسرائیلی پارلیمان میں یہ بل دائیں بازو کی لیکوڈ پارٹی سے تعلق رکھنے والے رکن ایلی کوہن نے پیش کیاتھا۔ان کا کہنا ہے کہ جو بھی مشرقِ اوسط کی واحد جمہوریت ریاستِ اسرائیل میں رہنا چاہتا ہے،اسے اس کی علامتوں کا احترام کرنا چاہیے۔انھوں نے کہا کہ ’’جو لوگ فلسطینی بننا اور رہناچاہتے ہیں وہ غزہ یا اردن منتقل ہوسکتے ہیں‘۔

اسرائیل میں عرب جماعتوں کے اتحاد کے رکن پارلیمان احمد طبی نے کہاکہ اس بل کا مقصد’’فلسطینی قوم پرستی کو نشانہ بنانا‘‘ہے۔انھوں نے رائٹرز کو بتایا کہ ’’یہ پرچم فلسطینی عوام کی نمائندگی کرتا ہے جہاں بھی وہ ہوں مگر بل ہمیں مٹانے کی کوشش کررہا ہے‘‘۔ اسرائیل میں آبادعرب اقلیت زیادہ تر فلسطینیوں پر مشتمل ہے۔وہ 1948 میں اپنی سرزمین پر صہیونی ریاست کے قیام کے وقت آبائی علاقوں ہی میں رہ گئے تھے اور انھوں نے فلسطینیوں علاقوں یا اردن میں مہاجرت اختیار نہیں کی تھی۔

ان کی تعداد اسرائیل کی کل آبادی کا قریباً 21 فی صد ہے۔یہ لوگ عام طور پر اسرائیلی شہریت کی قدرکرتے ہیں کیونکہ یہ انہیں مقبوضہ مغربی کنارے یا غزہ میں رہنے والے فلسطینیوں سے زیادہ فوائد حاصل ہیں لیکن بہت سے لوگ فلسطینی کے طور پر بھی شناخت رکھتے ہیں- اص طور پر جب سے اسرائیل نے 2018 میں قومی ریاست کا قانون منظورکیا تھا جس میں اعلان کیا گیا تھا کہ دریائے اردن اور بحیرۂ روم کے درمیان صرف یہودیوں کو حق خود ارادیت حاصل ہے۔

اسرائیلی قانون فلسطینی پرچموں کو غیرقانونی قرار نہیں دیتا لیکن پولیس اورفوجیوں کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ ایسی صورت حال میں یا جگہوں سے انھیں ہٹا دیں جہاں وہ سمجھتے ہیں کہ امنِ عامہ کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔ جنوبی اسرائیل کی بین گورین یونیورسٹی میں نفسیات کے فلسطینی طالب علم 23 سالہ حتف الحزیل نے کہا کہ پرچم پر پابندی لگا کر وہ ہمیں اور ہماری شناخت کو مٹانے کی کوشش کررہے ہیں۔

واضح رہے کہ گذشتہ ماہ معروف فلسطینی صحافی شیرین ابوعاقلہ کے جنازے پر اسرائیلی پولیس نے دھاوا بول دیا تھا اورسوگواروں سے ان کا تابوت کھینچنے کی کوشش کی تھی تاکہ اس پر لپٹے فلسطینی پرچم کواتارا جا سکے۔ اس کے چند روز بعد ہزاروں قوم پرست یہود نے مقبوضہ بیت المقدس میں مسجد الاقصیٰ کے باہر باب الدمشق میں اسرائیلی پرچموں کے ساتھ مارچ کیا تھا۔

یہ علاوہ شہرقدیم کے عرب اکثریتی علاقے میں واقع ہے اور بہت سے فلسطینیوں نے اسے اپنی شناخت پر کھلم کھلا اشتعال انگیزحملہ قرار دیا تھا۔