یورپی یونین کی طالبان سے بات چیت کا امکان

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 19-08-2021
اگلے چند دن اہم ہونگے
اگلے چند دن اہم ہونگے

 

 

بروسلز :یورپین یونین نے کہا ہے کہ افغانستان میں طالبان کی واپسی کے ساتھ ہی خطے میں طاقت کا جیو پولیٹیکل توازن تبدیل ہوگیا ہے اور اسے وہاں روس اور چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ پر تشویش ہے، تاہم عندیہ دیا کہ وہ طالبان سے بات کریں گے۔

یورپین یونین کی جانب سے ان خیالات کا اظہار یورپین خارجہ امور کے سربراہ جوزپ بوریل نے آج یورپین پارلیمنٹ میں افغانستان کی تازہ ترین صورتحال پر گفتگو کرتے ہوئے کیا۔

پارلیمنٹ کی خارجہ امور کمیٹی اور ڈیولپمنٹ کمیٹی کے افغانستان کے حوالے سے منعقد ہونے والے خصوصی اجلاس میں گفتگو کرتے ہوئے جوزپ بوریل نے کہا کہ افغانستان میں ہونے والی تازہ تبدیلیوں کے خطے اور بین الاقوامی سیکیورٹی پر وسیع اثرات ہوں گے، کیونکہ یہ کریمیا پر روس کے قبضے کے بعد سب سے بڑی جیو پولیٹیکل تبدیلی ہے۔

انہوں نے کہا کہ چین طالبان کو پہلے ہی تسلیم کرچکا ہے جبکہ روس جلد انہیں تسلیم کرلے گا، وہ وہاں اپنے سفارت خانے بند نہیں کر رہے بلکہ الٹا اب وہ وہاں اپنی موجودگی میں اضافہ کردیں گے اور یہ عمل خطے میں طاقت کے جیو پولیٹیکل توازن کو تبدیل کردے گا۔

انہوں نے مزید کہا کہ ہم جانتے ہیں کہ افغانستان میں ترکی، چین اور روس کے پاس اپنے اثر و رسوخ کو بڑھانے کا یہ نیا موقع ہے، ہمیں اس حوالے سے دیگر ممالک ایران، پاکستان، انڈیا اور دیگر وسط ایشیائی ممالک کو سفارتی ذرائع سے اعتماد میں لینا ہوگا۔ یورپین خارجہ امور کے سربراہ نے اپنی گفتگو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ وہ اس حوالے سے امریکا سے بھی رابطے میں ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں طالبان یا کابل میں موجودہ طاقت کے ساتھ رابطے کے لیے ذرائع کھولنے کی ضرورت ہے، لیکن اس کے ساتھ ہی انہوں نے واضح کیا کہ اس کا مطلب انہیں تسلیم کرنا نہیں ہوگا، جبکہ عندیہ دیا کہ وہ طالبان سے بات کریں گے۔ جوزپ بوریل نے کہا کہ اس وقت طالبان اپنا اچھا چہرہ دنیا کے سامنے پیش کر رہے ہیں، طالبان نے اپنی پہلی پریس کانفرنس میں تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ فکر نہ کرو لیکن میں بے تکلفانہ کہتا ہوں کہ ہمیں محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔

یورپین پارلیمنٹ میں اجلاس کے چیئرمین ڈیوڈ میک کرسٹل کی سربراہی میں خارجہ امور و ڈیولپمنٹ کمیٹیوں اور ڈیلیگیشن ود ریلیشنز آف افغانستان کے مشترکہ اجلاس کے شرکاء کے سامنے اپنی گفتگو کو جاری رکھتے ہوئے یونین کے خارجہ امور کے سربراہ جوزپ بوریل نے افغانستان کے حوالے سے اپنا تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں افغانستان میں نیشن بلڈنگ میں مغرب کی ناکامی سے سبق حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔

انہوں نے اس سلسلے میں امریکا کی جانب سے افغانستان میں 300 ملین ڈالر روزانہ کی بنیاد پر خرچ کرنے کا حوالہ بھی دیا۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں اپنے آپ سے پوچھنے کی ضرورت ہے کہ ہم سے کہاں غلطی ہوئی ہے۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے اعلان کیا کہ یورپ افغانستان کی انسانی امداد میں اضافہ کرے گا لیکن ان کی ترقیاتی امداد اس وقت تک بند رہے گی جب تک کہ ہمیں یہ معلوم نہیں ہو جاتا کہ افغانستان میں کون حکمران ہے؟۔

اس کے ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ ہم سارے افغان عوام کو ملک سے باہر نہیں لا سکتے لیکن اپنے ساتھ کام کرنے والے 300 افغانوں کو لانے کی کوشش کر رہے ہیں، 106 رکنی یورپین عملے کو وہاں سے پہلے ہی نکالا جا چکا ہے اور باقی کام کی تکمیل کیلئے وہ اپنے 4 سفارت کاروں کو افغانستان روانہ کر رہے ہیں۔