اردوغان اور اشرف غنی : بدعنوان ترین سربراہان میں شامل

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 28-12-2021
اردوغان اور اشرف غنی :  بدعنوان ترین سربراہان میں شامل
اردوغان اور اشرف غنی : بدعنوان ترین سربراہان میں شامل

 

 

 لندن : آرگنائزڈ کرائم اینڈ کرپشن رپورٹنگ پراجیکٹ نامی ایک تنظیم نے سب سے بدعنوان سربراہان کی ایک سالانہ رپورٹ جاری کی ہے جس میں ترک صدر رجب طیب اردوغان اور افغانستان کے سابق صدر اشرف غنی کے نام بھی شامل ہیں۔

مشرقی یورپ میں ذرائع ابلاغ، صحافیوں اور تحقیقاتی مراکز کے کنسورشیم آرگنائزرڈ کرائم اینڈ کرپشن رپورٹنگ پراجیکٹ (او سی سی آر پی) نے اپنی فہرست میں بیلاروس کے صدر اور یورپ کے آخری سخت گیر آمر الکساندر جی لوکاشینکو کو سال 2021 کے سب سے بدعنوان شخص کے ایوارڈ کے لیے نامزد کیا ہے۔

تنظیم کی جانب سے جاری ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ لوکاشینکو نے منظم جرائم اور بدعنوانی کو بڑھاوا دینے کے لیے جو کچھ کیا یہ نامزدگی اس کے اعتراف میں کی گئی ہے۔

سالانہ پرسن آف دی ایئر ایوارڈ کی فہرست میں افغانستان کے سابق صدر اشرف غنی، شام کے آمر بشار الاسد، ترک صدر رجب طیب اردوغان اور رسوائی کا شکار ہونے والے آسٹریا کے چانسلر سیباسٹین کرز کو بھی شامل کیا گیا ہے۔

 فہرست مرتب کرنے والے پینل میں شامل سلیون کے مطابق ’غنی بھی یقیناً ایوارڈ کے مستحق ہیں۔ انہوں نے غضب کی کرپشن کی ہے اور انتہائی نااہل ثابت ہوئے ہیں۔ انہوں نے اپنے لوگوں سے بے وفائی کی اور انہیں مصیبتوں اور موت کا سامنا کرنے کے لیے چھوڑ دیا تاکہ متحدہ عرب امارات میں بدعنوان سابق ریاستی عہدے داروں کے درمیان رہ سکیں۔‘

ادارے کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’بشار الاسد، شام کو تباہ کن خانہ جنگی کی طرف لے گئے اور اقتدار میں رہتے ہوئے کروڑوں ڈالر چرائے۔‘

اسی طرح فہرست میں شامل ترک صدر رجب طیب اردوغان کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ ’اردوغان ایک بدعنوان حکومت کی سرپرستی کرتے رہے جس نے سرکاری بنکوں کا استعمال کرتے ہوئے ایرانی تیل کے لیے چینی فنڈز کی منی لانڈرنگ کی۔

رپورٹ میں آسٹریا کے چانسلر سیباسٹین کرز کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہ آسٹرین پیپلز پارٹی (او وی پی) کے رہنما تھے جن پر ’نو دوسرے سیاست دانوں اور اخباری شخصیات سمیت خوردبرد اور رشوت لینے کا الزام ہے۔

چھ صحافیوں اور سکالرز پر مشتمل پینل بدعنوانی کا جائزہ لینے کے بعد سوویت یونین ختم ہونے کے بعد کے مطلق العنان حکمران لوکاشینکو کو منتخب کرنے میں کوئی پریشانی نہیں ہوئی۔ یہ ایوارڈ ایک دہائی سے دیے جا رہے ہیں لیکن یہ پہلا موقع تھا کہ فیصلہ متفقہ طور پر کیا گیا۔

پینل میں جج کے فرائض انجام دینے والے او سی سی آر پی کے شریک بانی ڈریوسلیون کے مطابق: ’اس سال کے دوران بہت بدعنوانی ہوئی لیکن لوکاشینکو ہجوم میں نمایاں ہیں۔‘

 پینل میں شامل ایک اور جج لوئس شیلی جن کا تعلق جارج میسن یونیورسٹی کے ساتھ ہے، کا کہنا تھا کہ لوکاشینکو نے کمزور لوگوں کے ساتھ سیاست کی اور بہانے پر بنا کر انہیں بیلاروس کی طرف راغب کیا اور اس طرح انہوں نے گھٹیاپن اور ظلم کی نئی مثال قائم کر دی۔ شیلی کا کہنا تھا کہ بیلاروسی رہنما نے’بڑے پیمانے پر ترک وطن کو ہوا دینے کے لیے بیلاروس کے جرائم پیشہ اور بدعنوان نیٹ ورکس کو استعمال کیا جس کا نتیجہ مایوسی، تشدد اور ختم نہ ہونے والے ظلم کی صورت میں نکلا۔‘

 انہوں نے انتخابات میں دھاندلی کی ناقدین کو تشدد کا نشانہ بنایا اور مظاہرین کو گرفتارکیا اور انہیں مارا پیٹا۔ یہ سب کچھ کریملن کی مدد اور منظوری سے کیا گیا۔

 رپورٹ کے مطابق ’وہ خود کو ’بتکا‘ یعنی بیلاروسی لوگوں کے ’بابا‘ کہتے ہیں۔ جو بھی اس تصور کو چیلنج کرتا ہے اس کا وہی حشر ہوتا ہے جو ان کے مخالف رومن پروتاسیویچ کا ہوا جو سات ماہ سے جیل میں ہیں۔ یا جو حشر سرگے تخانووسکی کا ہوا جنہیں 2020 میں حکومت مخالف مظاہرے منظم کرنے پر18 سال قید کی سزا دی گئی۔