کابل میں مختلف ممالک کےسفارت خانے کام کررہے ہیں:طالبان وزیرِخارجہ

Story by  غوث سیوانی | Posted by  [email protected] | Date 13-11-2021
کابل میں مختلف ممالک کےسفارت خانے کام کررہے ہیں:طالبان وزیرِخارجہ
کابل میں مختلف ممالک کےسفارت خانے کام کررہے ہیں:طالبان وزیرِخارجہ

 

 

اسلام آباد: افغانستان میں طالبان کی حکومت کے مقرر کردہ عبوری وزیرِ خارجہ امیر خان متقی کا کہنا ہے کہ ایک لحاظ سے ہماری حکومت کو عملی طور پر تسلیم کیا جا چکا ہے کیوں کہ کابل میں مختلف ممالک کے سفارت خانے کام کر رہے ہیں۔

پاکستان کے تین روزہ دورے پر آئے ہوئے طالبان کے عبوری وزیرِ خارجہ امیر خان متقی نے جمعے کو اسلام آباد اسٹریٹجک اسٹڈیز انسٹی ٹیوٹ میں اپنے خطاب میں کہا کہ طالبان اپنی حکومت سے بین الاقوامی برادری کی توقعات سے آگاہ ہیں۔

امیر خان متقی کے بقول بین الاقوامی برادری جن اصلاحات کی توقع رکھتی ہے وہ باہمی تعاون سے ہی ممکن ہیں، لیکن طالبان حکومت پر دباؤ سے یہ ممکن نہیں ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ بین الاقوامی برادری کو طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنا چاہیے۔

ان کے بقول ایک لحاظ سے عملی طور پر طالبان کی حکومت کو قبول کر لیا گیا ہے کیوں کہ کابل میں مختلف ملکوں کے سفارت خانے کام کر رہے ہیں جب کہ افغان سفارت کار بھی دوسرے ممالک میں موجود ہیں۔

انہوں ںے توقع ظاہر کی کہ جلد ہی طالبان کی حکومت کو باضابطہ طور پر بھی تسلیم کر لیا جائے گا۔ واضح رہے کہ رواں برس اگست میں طالبان کے افغانستان میں اقتدار سنبھالنے کے بعد دنیا کے کسی ملک نے ان کی حکومت کو باضابطہ طور پر تسلیم نہیں کیا ہے۔

اس موقع پر ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ افغانستان میں کوئی عسکریت پسند گروپ کسی دوسرے ملک کے مفادات کے خلاف سرگرم نہیں ہے۔

طالبان وزیرِ خارجہ متقی کا یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب ایک روز قبل امریکہ، روس، چین اور پاکستان نے طالبان سے ایک جامع حکومت کے قیام کے ساتھ تمام بین الاقوامی دہشت گرد گروپوں سے رابطے ختم کرنے اور افغانستان کی سر زمین کسی ملک کے خلاف استعمال ہونے کی روک تھام کے مطالبات کیے تھے۔

طالبان حکومت سے عالمی سطح پر افغانستان میں جامع حکومت کے مطالبات سے متعلق امیر خان متقی کا کہنا تھا کہ طالبان کی عبوری حکومت میں تمام افغان قومیتوں کو نمائندگی دی گئی ہے۔ ان کے بقول حکومت میں ازبک، تاجک، ہزارہ اور دیگر برادریوں کے نمائندگی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ حکومت میں پنج شیر، ہلمند، مزارِشریف اور دیگر علاقوں کے لوگ بھی شامل ہیں۔

جمعرات کو اسلام آباد میں ٹرائیکا پلس کے سفارت کاروں کے اجلاس کے بعد جاری ہونے والے ایک مشترکہ بیان میں طالبان پر زور دیا گیا تھا کہ وہ خواتین اور لڑکیوں کو تعلیم تک رسائی کے لیے مؤثر اقدامات کریں۔ اس بارے میں طالبان کے وزیرِ خارجہ متقی کا کہنا تھا کہ حکومت نے لڑکیوں کے اسکول کھولے ہیں البتہ ان کی تعلیم جاری رکھنے اور تنخواہیں ادا کرنے کے لیے وسائل نہیں ہیں۔

امیر خان متقی نے اس تاثر کو رد کر دیا کہ افغانستان میں خواتین کی نقل و حرکت اور سماجی و معاشرتی سرگرمیوں پر کوئی پابندی عائد ہے۔ ان کے بقول خوتین کے لیے تمام سماجی و معاشرتی سرگرمیوں میں شمولیت کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔

البتہ عالمی سطح پر خواتین اور انسانی حقوق سے متعلق طالبان کے طرزِ عمل پر تحفظات کا اظہار کیا جاتا رہا ہے۔ امیر خان متقی نے کہا کہ صحت کے محکمے میں کام کرنے والی 100 فی صد خواتین اپنے کام پر واپس آ چکی ہیں، جب کہ تعلیم کے شعبے میں کام کرنے والی 75 فی صد خواتین کارکن بھی اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔