دبئی: مس یونیورس مقابلے کی میزبانی کرے گا

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 08-10-2021
دبئی: مس یونیورس مقابلے کی میزبانی کرے گا
دبئی: مس یونیورس مقابلے کی میزبانی کرے گا

 

 

دبئی:  متحدہ عرب امارات میں پہلی مرتبہ مقابلہ حسن منعقد ہونے جارہا ہے جس کی فاتح دسمبر میں اسرائیل میں ہونے والے عالمی مس یونیورس میں ملک کی نمائندگی کرے گی۔

گلف نیوز کی رپورٹ کے مطابق یوگن ایونٹس کے بانی اور چیف ایگزیکٹو افسر جوش یوگن اور مس یونیورس یو اے ای کے نئے صدر نیشنل ڈائریکٹر جوش یوگن نے کہا کہ 'کسی بھی شہریت کی حامل امارات کی رہائشی خاتون جس کی عمر 18 سے 28 برس کے درمیان ہے وہ اس مقابلے میں حصہ لے سکتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ وہ اس قوم کی نمائندگی کریں۔ کمیٹی میں دبئی کے یوگن ایونٹس کے بانی اور چیف ایکزیکٹیو جوش یوگن، دبئی کے فیشن ڈیزائنر فرن آمے، سابق فلپائن نژاد برطانوی ملکہ حسن میگی ولسن، ایمار کے جنرل مینیجر شریحان المشری اور انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے الاف میکی اور زیل علی شامل ہیں۔

نومبر میں لا پرلے، الحبتور سٹی میں منعقد ہونے والے مقابلے میں تیراکی کے لباس کا راؤنڈ شامل نہیں کیا جائے گا۔ اس کے بجائے ایک فیشن کوچر راؤنڈ ہوگا جس کی قیادت مشہور فلپائنی ڈیزائنر فرنے ون کر رہے ہیں۔ مقابلہ حسن کی فاتح اسرائیل میں عالمی سطح پر ہونے والے مس یونیورس کنٹیسٹ میں یو اے ای کی نمائندگی کرے گی۔ جوش یوگن نے کہا کہ 'میں کبھی اس مقابلہ حسن کو ڈبے میں بند نہیں رکھنا چاہتے، یہ صرف خوبصورتی یا صرف ذہانت سے متعلق نہیں بلکہ ان کے دل کے بارے میں، یہ مقابلہ تمام شہریتوں سے وابستہ خواتین کے لیے ہے'۔

مقابلہ میں حصہ لینے کے خواہش مند افراد 7 اکتوبر سے رجسٹریشن کروا سکتے ہیں۔ نتخب ہونے والوں سے 15 اکتوبر کو رابطہ کیا جائے گا۔ تیس ماڈلز کے ناموں کا اعلان 20 اکتوبر کو کیا جائے گا، جو پھر لائیو شو میں حصہ لیں گی۔ سابق ملکہ حسن میگی ولسن نے بتایا کہ ’15 برس قبل جب میں نے پہلی بار حصہ لیا تھا تب سے اب تک ملکہ حسن کے مقابلے اتنے بدل گئے ہیں۔

اب اس میں حصہ لینے والی خواتین میں کافی تنوع ہے'۔ انہوں نے کہا کہ 'میرے زمانے میں ہمارے پاس ملکہ حسن کا ایک مخصوص معیار تھا، اب کچھ سالوں میں اگر آپ مس یونیورس میں جتنے والوں کو دیکھیں تو وہ سب بہت مختلف لگتی ہیں'۔ میگی ولسن نے کہا کہ مختلف جسامت والی لڑکیاں بھی اس میں حصہ لے رہی ہیں اور مقابلے میں اسے معمول بنانے کی کوشش کی جارہی ہے