دبئی ایکسپو: سابق امریکی صدر تھامس جیفرسن کےتاریخی قرآنی نسخہ کی نمائش

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 11-10-2021
امریکی صدر تھامس جیفرسن کا تاریخی قرآنی نسخہ
امریکی صدر تھامس جیفرسن کا تاریخی قرآنی نسخہ

 

 

 دبئی :دبئی ایکسپو دنیا بھر میں توجہ کا مرکز ہے۔دنیا اس میں ا امریکی صدر تھامس جیفرسن کا تاریخی قرآنی نسخہ دبئی ایکسپو میں امریکہ کے صدر تھامس جیفرسن کے پاس رہنے والا قرآن مجید کا تاریخی نسخہ دبئی ایکسپو 2020 میں امریکی پویلین میں عام لوگوں کے دیکھنے کے لیے رکھا گیا ہے۔

یہ پہلی بار ہے کہ اس تاریخی نسخے کو واشنگٹن میں امریکی کانگرس کی لائبریری سے کسی عالمی نمائش میں بھیجا گیا ہے۔1801 سے 1809 تک امریکا کے صدر رہنے والے تھامس جیفرسن کے بارے میں لوگوں کا خیال ہے کہ انہوں نے قرآن پاک کا یہ نسخہ اپنی نوجوانی میں وکالت کی تعلیم کے دوران حاصل کیا۔

جیفرسن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہیں دنیا کے مختلف مذاہب کے بارے میں جاننے میں بہت دلچسپی تھی اور وہ قرآن پاک کے الفاظ کو قانونی کوڈز کے طور پر بھی استعمال کیا کرتے تھے۔

 دبئی ایکسپو میں امریکی پویلین نے آفیشل ٹوئٹر اکاؤنٹ کے ذریعے بتایا ہے کہ ’یہ نسخہ امریکہ کے پویلین میں رکھا گیا ہے جس کے تھیم کا عنوان ہے ’زندگی، آزادی اور مستقبل کے لیے۔

 تھامس جیفرسن امریکہ کے تیسرے صدر تھے جن کو امریکی آزادی کے ڈیکلریشن کے بنیادی خالق کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔قرآن کے تاریخی نسخے کو ایک خصوصی طور پر تیار کیے گئے لکڑی کے باکس میں واشنگٹن میں کانگرس کی لائبریری سے بھیجا گیا ہے۔

دو جلدوں پر مشتمل اس تاریخی ایڈیشن کا انگلش ترجمہ سنہ 1734 میں جارج سیل نے کیا تھا۔لکڑی کے باکس کے ساتھ چار انچوں والی خصوصی ٹرے بھی ہیں جن کے ساتھ سنسر لگے ہیں جو وائبریشن کے ذریعے درجہ حرارت میں تبدیلی کا بتاتے ہیں۔امریکی کانگرس کی لائبریری سے مکہ کا ایک تاریخی نقشہ بھی دبئی ایکسپو میں نمائش کے لیے پیش کیا گیا ہے۔

تاریخی قرآنی نسخے کو واشنگٹن سے دبئی میں جاری عالمی ایکسپو تک پہنچانے کے لیے خصوصی سکیورٹی سٹاف متعین کیا گیا۔ عرب نیوز کے مطابق مانا جاتا ہے کہ تھامس جیفرسن جو سنہ 1801 سے 1809 تک دو مدتوں کے لیے صدر رہے، نے قرآن کا یہ نسخہ اس وقت حاصل کیا جب وہ قانون کی تعلیم حاصل کر رہے تھے۔دو جلدوں پر مشتمل قرآن کے اس نسخے کی طباعت لندن میں کی گئی تھی اور اس سے پہلے کبھی امریکہ سے باہر نہیں لے جایا گیا۔

جیفرسن کے ذاتی قرآنی نسخے نے2019ء کے اوائل میں توجہ حاصل کی جب کانگریس کے لیے منتخب ہونے والی پہلی مسلمان خاتون راشدہ طلیب نے اعلان کیا کہ وہ تقریب حلف برداری میں اپنا حلف اس نسخہ پر دیں گی۔

یہ پہلی بار نہیں تھا کہ کانگریس کے کسی ممبر نے صدیوں پرانے نسخہ قرآنی پر حلف دینے کی بات کی، کیتھ الیسن وہ پہلے کانگریس رکن تھے جنہوں نے2007ء میں ایسا کیا۔ اس نسخہ قرآنی کا استعمال امریکہ میں اسلام کی طویل اور اہم تاریخ کے خاکے کو اجاگر کرتا ہے۔ راشدہ طلیب کہتی ہیں کہ ایسا کرنا میرے لیے انتہائی اہمیت کا حامل تھا کیوںکہ بہت سے امریکی اس قسم کا احساس رکھتے ہیں کہ جیسے اسلام امریکا میں کچھ عرصہ پہلے ہی درآمد ہوا ہے۔

جارج سیل کا ترجمہ قرآن

جیفرسن کا قرآنی نسخہ جارج سیل نامی برطانوی وکیل کا ترجمہ تھا جو اس نے1734ء میں کیا تھا۔ یہ براہ راست عربی سے کیا گیا پہلا انگریزی کا ترجمہ تھا جو اپنی اشاعت کے 150سال بعد تک انگریزی تراجم میں نمایاں مقام کا حامل رہا۔ اس سے پہلے جو انگریزی ترجمہ دست یاب تھا وہ فرانسیسی زبان سے انگریزی میں منتقل ہوا تھا اور1649ء میں شائع ہوا۔

کیسے پہنچا یہ قرآن جیفرسن 

حقیقت یہ ہے کہ مسلمان امریکا میں بالکل آغاز سے موجود ہیں اور امریکا کے لگ بھگ چار بانی راہ نما کانگریس کے موجودہ ارکان سے زیادہ اسلام کے بارے میں جانتے تھے۔ جیفرسن کے زیر مطالعہ ترجمہ قرآن کانگریس لائبریری میں کیسے پہنچا اس بابت بتایا جاتا ہے کہ 1781ء میں جب امریکا اور برطانیہ کے مابین جنگ ہوئی، تو برطانوی فوجیوں نے لائبریری کی عمارت جلا کر خاک کر دی۔ یوں تین ہزار قیمتی کتابیں بھی راکھ ہوئیں۔

تب جیفرسن نے لائبریری کو اپنے کتب خانے میں سے تقریباً ساڑھے چھے ہزار کتب واجبی قیمت پر فروخت کر دیں، تاکہ وہ نئے سرے سے اپنے پیروں پر کھڑی ہوسکے۔ ان کتابوں میں ایک قرآن پاک کا دو جلدوں پر مشتمل انگریزی ترجمہ کاوہ نسخہ بھی تھا جو جیفرسن نے 1765ء میں 22 سال کی عمر میں خریدا تھا۔

awazurdu

کیوں تھی دلچسپی 

آسٹن کی یونیورسٹی آف ٹیکساس میں تاریخ کی پروفیسر اور کتاب ’’تھامس جیفرسن کا قرآن اسلام اور بانیانکی مصنفہ ڈینیز اے اسپیل برگ لکھتی ہیں کہ اٹھارویں صدی عیسوی میں قرآن کو برطانیہ اور نارتھ امریکا کے پروٹیسٹینٹ فرقے میں انتہائی مقبولیت حاصل ہوئی اور لوگوں نے اس کے مطالعہ میں بڑے پیمانے پر دل چسپی لی، کیوںکہ لوگ اسے ایک قانون کی کتاب کے طور پر لے رہے تھے اور ان کا خیال تھا کہ اس طرح وہ مسلمانوں کو سمجھ سکیں گے جن سے وہ پہلے ہی سلطنت عثمانیہ اور شمالی افریقہ میں میل جول رکھے ہوئے تھے۔1765ء میں جب جیفرسن نے قانون کے طالب علم کی حیثیت سے قرآن کا نسخہ حاصل کیا تو اس کی وجہ عثمانی قانون کے سمجھنے میں اس کی دل چسپی بتائی جاتی ہے۔

قارئین کے لیے یہ واقعہ بھی دل چسپی سے خالی نہ ہوگا کہ امریکا کی تاریخ میں وائٹ ہاؤس میں کسی مسلمان مہمان کے اعزاز میں پہلا افطار تھامس جیفرسن نے1805ء میں دیا۔ یہ مہمان ایک تیونسی سفارت کار سلیمان ملیملی تھے۔نیز یہ بھی ایک تاریخی اتفاق ہے کہ 1786ء میں کسی بھی بیرونی طاقت سے امریکا کا پہلا معاہدہ مسلمان ملک مراکش کے ساتھ ہوا۔ اس معاہدے میں جیفرسن نے اہم کردار ادا کیا۔