بنگلہ دیش میں مذہبی شدت پسندی کو ہوا دینے کی سازش

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 01-04-2021
شدت پسندی کو ہوا
شدت پسندی کو ہوا

 

 

نئی دہلی۔ پچھلے ہفتے وزیر اعظم نریندر مودی کے دورے پر بنگلہ دیش میں پرتشدد مظاہرے دراصل ایک بنیاد پرست گروپ کی نئی قیادت کا نتیجہ تھے۔حفاظت الاسلام نامی گروپ کے نئے قائد جنید بابو ناگری نے، پچھلے سال نومبر ہی تنظیم کا چارج سنبھالا ہے۔جبکہ مودی کے دورے کو ایک بڑا مسئلہ بنانے کا مقصد در اصل ملک میں شدت پسندی کی نئی لہر پیدا کرنا اور اپنا پہچان بنانا ہے۔ جو لوگ اس بنیاد پرست اور شدت پسندانہ نظریات کے حامی مذہبی لیڈر سے واقف ہیں ان کا کہنا ہے کہ مودی کے دورے کو بھنا نے کی کوشش کررہا ہے۔

بابوناگرینامی ایک عالم، جنہوں نےچار سال تک پاکستان کے جامعہ العلوم اسلامیہ میں تعلیم حاصل کی تھی،اس تنظیم سے الگ ہوچکے ہیں ،کیونکہ پچھلے سال ستمبر میں اس کے امیر شاہ احمد شفیع کی موت کے بعد اقتدارکی جنگ چھڑ گئی تھی۔ان کا کہنا ہے کہ خود کو منوانے اور پیر جمانے کی کوشش ہے۔ یاد رہے کہ گذشتہ ہفتے بنگلہ دیش میں مظاہرین پر سیکیورٹی فورسز کے کریک ڈاؤن کے بعد مظاہروں میں کم از کم 13 افراد کی ہلاکت کی تصدیق کی گئی ہے اور لاتعداد زخمی ہوگئے ہیں۔جمعہ کے روز ڈھاکہ کی ایک مشہور اور بڑی مسجد سے یہاحتجاج تیزی سے پھیلنا شروع ہوا تھا۔مظاہرین نے گاڑیوں کو جلایا اور مسافر ٹرین پر حملہ کیا۔ جمعہ کو جمعہ کے روز پانچ افراد ہلاک ہوگئے ، جس دن وزیر اعظم مودی ڈھاکا پہنچے ، اگلے دن چھ اور دو افراد اتوار کو۔

ایک ہندوستانی ذرائع نے کہا کہ اس بنیاد پرست گروہ نے 2 اپریل کو ملک بھر میں ہڑتال کا اعلان کیا ہے۔جس میں پولیس کی کارروائیوں کے خلاف احتجاج کیا جائے گا،ذرائع کے مطابق اس کے مذہب اور اقتدار کی سیاست کے زبردست اختلاط سے بنگلہ دیشی معاشرے کو بنیاد پرست بنانے کی ایک مسلسل کوشش تھی۔

حقیقت یہ ہے کہ ، وزیر اعظم مودی کےڈھاکہ پہنچنے سے پہلے ہی احتجاج کا نعرہ بلند کیا جاچکا تھا۔ تاہم ، تشدد کے پھیلاؤ نے حکام کو حیرت میں ڈال دیا۔حیرت کی بات یہ ہے کہ بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی نے کل بنگلہ دیش میں ہڑتال کی حمایت کی ہے۔ باضابطہ طور پر حمایت نہیں کی لیکن واضح طور پر زور دے کر کہا کہ ہڑتال کی کال جائز ہے۔

 حفاظت اسلام نامی تنظیم کا دعوی ہے کہ ایک غیر سیاسی تنظیم ہے۔مگر اس کی سرگرمیوں کا سب سے پہلا اشارہ ۲۰۰۹ میں ملا تھا جب تنظیم نے خواتین کے وراثت کے حقوق کو یکساں کرنے کی مخالفت کی تھی۔اس کے بعد ۲۰۱۳ میں ۱۹۷۱ کے جرائم کےلئے ملزمین کو پھانسی دینے کی حمایت میں جاری ’شاہ باغ تحریک‘ کا مقابلہ کیا تھا۔

 بہرحال پچھلے سال نومبر میں بانی شاہ احمد شفیع کی موت کے بعد تنظیم میں جب جنید ناگری نے کمان سنبھالی تو تنظیم کے تیور جارحانہ ہوگئے تھے۔

دہلی اور ڈھاکہ کے سفارت کاروں کا ماننا ہے کہ بابو ناگری کی حفاظت اسلامی اور بی این پی کے درمیان رابطے مزید واضح ہوسکتے ہیں کیونکہ وہ بدنام زمانہ گروپ کو ایک سیاسی قوت میں تبدیل کرنے کی کوشش کررہا ہے۔

بنگلہ دیش کے سینئر صحافی محفوظ انعم اس سے متفق نظر آئے۔ ایک حالیہ تبصرے میں انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم مودی کے دورے کے خلاف مظاہروں کی اصل وجہ یہ اشارہ کرنا تھا کہ اپنی نئی قیادت میں حفاظت اسلام وہی پارٹی نہیں جس کی قیادت شاہ احمد شفیع نے کی تھی۔ محفوظ اعم بنگلہ دیش کے مقبول انگلش اخبار دی اسٹار کے ایڈیٹر ہیں۔ذرائع کا کہنا ہے کہ حفاظت اسلامی کا مقصد معاشرے میں مذہبی شدت پسندی کا زہر گھولنا ہے۔