روس نے یوکرائن پرحملہ کیا تو فیصلہ کن جواب دیا جائے گا:جو بائیڈن

Story by  ایم فریدی | Posted by  Shah Imran Hasan | Date 13-01-2022
 روس نے یوکرائن پرحملہ کیا تو فیصلہ کن جواب دیا جائے گا:جو بائیڈن
روس نے یوکرائن پرحملہ کیا تو فیصلہ کن جواب دیا جائے گا:جو بائیڈن

 

 

امریکی صدر نے اپنے یوکرائنی ہم منصب کے ساتھ ایک فون کال کے دوران وعدہ کیا ہے کہ اگر روس نے یوکرائن پر حملہ کیا تو امریکا ''فیصلہ کن جواب'' دے گا۔ یوکرائن کی سرحد پر اس وقت روس کے لاکھوں فوجی جمع ہیں۔

امریکی صدر جو بائیڈن نے دو دسمبر اتوار کے روز اپنے یوکرائنی ہم منصب وولودومیر زیلنسکی سے فون پر پھر بات چیت کی اور اس گفتگو کے دوران انہوں نے روسی جارحیت کے خلاف یوکرائن کی آزادی کے لیے اپنی انتظامیہ کی حمایت کا اعادہ کیا۔

وائٹ ہاؤس کے پریس سکریٹری جین ساکی نے اس فون کال کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا، ''صدر جو بائیڈن نے واضح کر دیا ہے کہ اگر روس نے یوکرائن کے خلاف مزید حملے کیے تو امریکا اور اس کے اتحادی اور شراکت دار اس کا فیصلہ کن جواب دیں گے۔''

وائٹ ہاؤس کی ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ صدر جو بائیڈن نے، ''یوکرائن کی خود مختاری اور علاقائی سالمیت کے لیے امریکی عزم کا بھی اعادہ کیا۔'' واشنگٹن اور یورپی یونین نے ماسکو پر یوکرائن پر حملہ کرنے کی دھمکی دینے کا الزام عائد کیا ہے۔ روسی افواج نے سن 2014 میں کرائمیا پر قبضہ کر لیا تھا اور تبھی سے وہ ملک کے مشرقی علاقے میں علیحدگی پسندوں کی حمایت کرتا رہا ہے۔

دونوں صدور میں کیا بات چیت ہوئی؟

جو بائیڈن نے گزشتہ ہفتے روسی صدر ولادیمیر پوٹن کے ساتھ بھی فون پر بات کی تھی۔ انہوں نے اس فون کال کے دوران روس کو خبردار کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر ماسکو یوکرائن پر فوجی حملہ کرتا ہے تو اس کے سنگین نتائج برآمد ہوں گے۔ امریکا اور روس کے حکام اسی سلسلے میں آئندہ نو اور دس جنوری کو جنیوا میں مذاکرات کے لیے ملاقات کرنے والے ہیں۔

صدر جو بائیڈن نے یوکرائن کے صدر وولودومیر زیلنسکی کے ساتھ فون پر بات چیت کے دوران اس اہمیت پر زور دیا کہ اس سلسلے میں جاری تمام طرح کے مذاکرات کے بارے میں یوکرائن کو بھی اچھی طرح سے باخبر رکھنے کی ضرورت ہے۔

یوکرائن کے صدر نے بھی اپنی ایک ٹویٹ میں صدر جو بائیڈن کے ساتھ فون کال کا حوالہ دیتے ہوئے ''یوکرائن کے لیے ان کی غیر متزلزل حمایت'' کی تعریف کی۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ دونوں رہنماؤں نے یورپ میں امن کے قیام اور ''مزید کشیدگی کے بڑھنے'' کی روک تھام کے ساتھ ساتھ ''اصلاحات'' اور جمہوری قدروں کو فروغ دینے جیسے امور پر تبادلہ خیال کیا۔

سفارتی حل تلاش کرنے کی کوشش

ماسکو کا موقف ہے کہ اس نے نیٹو کے تجاوزات کے خلاف بطور تحفظ یوکرائن کی سرحد پر اپنے فوجیوں کو تعینات کیا ہے۔ صدر پوٹین نے یہ بھی مطالبہ کیا ہے کہ یوکرائن کو نیٹو کی رکنیت نہ فراہم کی جائے۔

حالانکہ فی الوقت یوکرائن مغربی اتحاد نیٹو میں شامل ہونے کے لیے کسی عمل سے نہیں گزر رہا ہے اور نہ ہی اسے اس میں شامل ہونے کی دعوت دی گئی ہے۔ ادھر امریکا نے، ''کشیدگی کو کم کرنے کے لیے اعتماد سازی کے اقدامات اور منسک معاہدوں کے نفاذ کو آگے بڑھانے کے لیے فعال سفارت کاری'' کے لیے اپنی حمایت کا اعادہ کیا ہے۔

منسک معاہدے کے تحت کیف یوکرائن کے مشرقی ڈونباس علاقے میں باغیوں کے لیے روسی حمایت کے خاتمے کے بدلے میں بعض سیاسی اصلاحات نافذ کرنے پر راضی ہے۔ یہ معاہدہ جرمنی اور فرانس کی ثالثی میں ہوا تھا۔

روسی صدر پوٹن نے بھی خبردار کیا ہے کہ روس کے خلاف مزید پابندیاں ''بہت بڑی غلطی'' ہو گی۔ اب تک فریقین اس ممکنہ مہلک بحران سے باہر نکلنے کے لیے سفارتی راستوں پر عمل جاری رکھنے پر اتفاق کر رکھا ہے۔