ملک میں اقلیتوں کے لیے کوئی جگہ نہیں: بنگلہ دیشی میڈیا

Story by  ایم فریدی | Posted by  Shah Imran Hasan | Date 22-10-2021
شیخ حسینہ
شیخ حسینہ

 

 

آواز دی وائس، نئی دہلی

بنگلہ دیش میں ان دنوں اقلیتی برادری پرمسلسل حملے ہو رہے ہیں،اقلیتی برادری پرہونے والے ان حملوں کی ساری دنیا میں شدید الفاظ میں مذمت  کی جا رہی ہے، اب بنگلہ دیش کی میڈیا بھی حکومت پر سخت تنقید کر رہی ہے۔ 

بنگلہ دیش تشدد کی آگ میں جل رہا ہے، وہاں  کی اقلیتی برادری پر برابر حملے ہو رہے ہیں۔ گذشتہ13 اور 17 اکتوبر2021 کے درمیان ہونے والے تشدد میں  متعدد درگا پوجا کے پنڈالوں میں توڑ پھوڑ کی گئی۔ وہاں ہندوؤں کے گھر جلائے گئے، ان پر حملہ کیا گیا۔

اقلیتی برادری پر حملےکے بعد اب وزیراعظم شیخ حسینہ سوالات کے گھیرےمیں ہیں۔ اقلیتوں کے تحفظ کے تئیں ان پرتنقید کی جا رہی ہیں۔

یہاں بنگلہ دیش کے چار اخبارات کے بیانات نقل کئے جا رہے ہیں۔

ڈیلی اسٹار

بنگلہ دیش کے مشہور اخبار ڈیلی اسٹار نے لکھا ہے کہ تشدد منصوبہ بند تھا۔ انتظامیہ تشدد پر قابو پانے میں ناکام ہو چکی ہے۔ ماضی میں بھی اسی طرح کے واقعات پیش آچکے ہیں۔ ہندوؤں پر حملے ہوئے ہیں اور اب بھی جاری ہیں۔

 اخبار نے مزید لکھا ہے کہ یہ حکومت اپنےآپ کو اقلیتی دوست کے طور پر پیش کرتی ہے ، لیکن 2001 کے انتخابات کے بعد سے ہونے والے تشدد میں سیکڑوں لوگ مارے گئے ، خواتین کے ساتھ زیادتی کی گئی ، گھروں میں توڑ پھوڑ کی گئی اور لوٹ مار کی گئی- متاثرین کے خاندانوں کو ابھی تک انصاف نہیں ملا، حکومت ایسے لوگوں کے خلاف کارروائی کیوں نہیں کر رہی؟

ڈیلی اسٹارنے توہین قرآن کے دعوے کو بھی من گھڑت قرار دیتے ہوئے حکومت سے سوال کیا ہے کہ ہم نے اقلیتی برادری کو تحفظ کی یقین دہانی کرائی تھی لیکن افسوس کہ ایسا نہیں ہوسکا۔

ڈھاکہ ٹریبیون

ڈھاکہ ٹریبیون اس تشدد کے بارے میں لکھتا ہے کہ ہم نے پچھلے ہفتے درگا پوجا کی حفاظت کے بارے میں ایک اداریہ لکھا تھا۔ ہم نے امید ظاہر کی تھی کہ اس بار ملک کی ہندو آبادی خود کو محفوظ محسوس کرے گی اور تہوار خوشی سے منائے گی۔

ملک میں شرپسند عناصر نے ہندوؤں پر حملے کر کے گھناؤنا کام کیا ہے۔ جس طرح اقلیتی برادری کو نفرت کی وجہ سے نشانہ بنایا گیا ، ہمارا ملک کمزور ثابت ہوا ہے۔

اَخبارکا کہنا ہے کہ ہماری بنیاد سیکولر ہے لیکن موجودہ حالات کو دیکھ کرایسا لگتا ہے کہ اب بنگلہ دیش میں اقلیتوں کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔ اس طرح کے واقعات برسوں سے ہو رہے ہیں۔ وجوہات کچھ بھی ہوں لیکن ہر بار ملک کی اقلیتی برادری کو نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔

نیوایج

بنگلہ دیش کے معروف اخبار نیو ایج نے لکھا ہے کہ اس تشدد کے بعد جس طرح سے لوگوں کو گرفتار کیا جا رہا ہے، لوگوں کے خلاف مقدمات درج کیے جا رہے ہیں، ماضی میں بھی اس طرح کے اقدامات کیے گئے ہیں، لیکن شاید ہی کوئی موثر نتیجہ برآمد ہوا ہو۔ اس قسم کا عمل لوگوں میں نفرت بڑھا سکتا ہے۔

نیوایج نے مزید لکھا ہے کہ جن بے گناہ لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے وہ پولیس کے تشدد کا شکار ہو سکتے ہیں۔ اس سے ان کے ذہن میں ہندو برادری کے لیے نفرت کا جذبہ پیدا ہو سکتا ہے۔

ڈیلی آبزرور

انگریزی اخبار ڈیلی آبزرور نے  لکھا ہےکہ فرقہ وارانہ کشیدگی ایک عالمی مسئلہ ہے۔ یہ ایک طویل عرصے سے ہمیں متاثر کر رہا ہے۔ اقلیتی برادری کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ ابھی صورتحال ایسی ہے کہ اقلیتی برادری معاشرے میں عدم مساوات کا سامنا کرنے کے لیے پیدا ہوئی تھی۔ مذہبی اور نسلی تنازعہ دنیا میں تیزی سے پھیل رہا ہے۔ یہ کمزور ممالک میں آسانی سے دیکھا جا سکتا ہے۔

اخبار نے کہا تھا کہ تاہم جب بنگلہ دیش دنیا کے نقشے پر آیا تو اس کی بنیاد فرقہ وارانہ ہم آہنگی پررکھی گئی۔ ہندو، مسلمان، سکھ، عیسائی سب مل کر پاکستان سے آزادی کے لیے لڑے ، لیکن ان دنوں کچھ قوتیں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو بگاڑ رہی ہیں ، لوگوں کو اکسا رہی ہیں اور تشدد کو ہوا دے رہی ہیں۔

تاہم وزیر اعظم نے ایسے لوگوں کے خلاف سخت کارروائی کرنے کی بات کہی ہے۔ امید ہے کہ اس میں ملوث لوگ جلد از جلد پکڑے جائیں گے اور مجرمین کو سخت سے سخت سزا دی جائے گی۔