عائشہ امین :جن کے شوق میں مذہب کبھی رکاوٹ نہیں بنا

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | 3 Years ago
شان کی سواری
شان کی سواری

 

 

کاوش عزیز ۔ لکھنؤ

دنیا بدل رہی ہے،نئی نسل نئی اڑان بھر رہی ہے۔ زندگی جینے کا انداز بدل رہا ہے اور زندگی کے اصول بھی۔

اب نوجوان تعلیم کے ساتھ کرئیرکی فکرتوکرتا ہے لیکن اس کے ساتھ لائف اسٹائل کو نظر انداز نہیں کرتا۔اپنے شوق اورعادت سےسمجھوتہ نہیں کرتے۔اصول یہی ہے جی لو زندگی۔اس کی ایک مثال ہیں لکھنئوکی عائشہ امین ۔

ایک ایسی لڑکی جوآپ کو لکھنؤ سڑکوں پراپنی اسٹائلش موٹرسائیکل کے ساتھ نظر آجائے گی۔ یوں تو لڑکیوں کا اسکوٹی چلانا عام ہے۔ لیکن کسی لڑکی کا موٹر سائیکل چلانا یا خاص طور پر انفیلڈ پر سواری کرنا ہر کسی کو متوجہ کر لیتا ہے۔لوگ چونکتے ہیں۔پل بھر کو ٹھہر بھی جاتے ہں۔مگر عائشہ امین کی سواری نہیں رکتی۔

در اصل  انفیلڈ ایک ایسی موٹر سائیک ہے جو ایک وقت فوجی اور پولیس کی سواری تھی۔عام لوگوں کےلئے یہ موٹر سائیکل ایک مہنگا سودا ہوتی تھی۔مگر اب شوق نے اس مہنگے سودے کو بھی قابل قبول بنا دیا ہے۔ جو انفیلڈ یوم جمہوریہ کی پریڈ میں فوجی جوانوں کے اشاروں پر کرتب دکھاتی نظر آتی ہیں وہ دراصل چلانے میں اسقدر مشکل ہوتی ہیں کہ انہیں پریڈ کے دوران کرتب بازی کے طور پر استعمال کرکے فوجی بھی اپنا لوہا منوانا پسند کرتے ہپیں۔

یہ ہے نئی نسل کے نئے شوق ۔جس کی آڑ میں نہ معاشرہ آتا ہے نہ مذہب۔ ایک بدلتے ماحول کی تصویر ہے۔عائشہ امین کا کہنا ہے کہ اسٹائل یا شوق میں مذہب یا معاشرہ کبھی رکاوٹ نہیں بنتا ہے۔نہ اسٹائل اور شوق مذہب کےلئے خطرہ ہے اور نہ ہی مذہب کےلئے شوق۔ بات بالکل واضح ہے کہ انسان کی زندگی اور طرز زندگی کا معیار اور توازن زندگی کو نارمل رکھتا ہے۔

aa

لکھنؤ کی عائشہ امین اپنی انفیلڈ پر سوار ہوکرکئی ریاستوں کا سفر کرچکی ہیں،انہیں بچپن سے ہی موٹر سائیکل چلانے کا شوق تھا، 18 سال عبور کرنے کے بعد عائشہ نے بلٹ کی سواری شروع کردی تھی،آہستہ آہستہ اس میں اپنی مہارت کا مظاہرہ کرنا شروع کیا، 25 سالہ عائشہ امین نے سب سے پہلے 2010 میں اپنے بھائی کی بلٹ چلائی تھی۔

عائشہ امین با حجاب رہتی ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ میں اس نظریہ اور سوچ کو غلط ثابت کرنا چاہتی تھی کہ جو حجاب یا عبایا استعمال کرتا ہے وہ کہیں نہ کہیں کسی بندھن میں بندھا ہوا ہے۔حجاب یا عبایا ایک ذاتی پسند ہیں۔ ان کا کسی کی زندگی یا شوق پر کوئی اثر نہیں پڑتا ہے۔یہ بات عائشہ امین نے ثابت کی ہے۔ لباس یا حجاب میری پسند ہے اور موٹر سائیکل چلانا میرا شوق۔ عائشہ امین کا کہنا ہے کہ مجھے کسی نےہیںروکا کہ موٹر سائیکل مت چلاو۔ عائشہ امین کےلئے یہ اہم ہے کہ اس نے وزنی موٹر سائیکل کو پسند کیا ۔

aaa

عا م طور پر سو سی سی کی موٹر سائیکل یا اسکوٹی کو لڑکیوں کےلئے موزوں مانا جاتا ہے لیکن انہوں نے ایک ایسی موٹر سائیکل کو پہلی پسند بنایا جو ساڑھے تین سو سی سی کی ہوتی ہے ،جس کو مردوں کےلئے بھی ایک مشکل سواری مانا جاتا ہے۔

عائشہ لکھنؤ کے راجی پورم میں رہتی ہیں۔ان کے والد محمد امین تعمیراتی فرم میں کام کرتے ہیں،عائشہ بھی حکومت کی مہم "بیٹی بچاؤ ، بیٹی پڑھاو" میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی ہیں۔ عائشہ امین کا کہنا ہے کہ اب لوگ مجھے موٹر بائیکس لوازمات بطور تحفہ دیتے ہیں ، جبکہ ان کے والد نے بطور تحفہ اپنی موٹر سائیکل دی ، عائشہ نے صحافت میں گریجویشن کی اور بی بی سی میں انٹرن کی حیثیت سے کام کیا۔مگر موٹر سائیکل ان کی پہلی پسند ہے