افغانستان: 20سال کے بعد امریکہ کی واپسی مکمل

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 31-08-2021
رات کی تاریکی میں انخلا مکمل
رات کی تاریکی میں انخلا مکمل

 

 

کابل: آخر کار بیس سال بعد  امریکہ نے افغانستان کو الوداع کہہ دیا ۔ اافغانستان سے امریکی افواج کی آخری اڑان کے ساتھ انخلا کا عمل پورا ہوگیا ہے۔

فغانستان: دو دہائیوں کی جنگ کے بعد امریکی انخلا مکمل امریکی وزیر خارجہ اینٹنی بلکن نے فوجی مشن کے اختتام کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ اب سفارتی مشن دوحہ سے جاری رہے گا۔

دو ہفتے کی افراتفری سے بھرپور آپریشن کے بعد افغانستان سے امریکی فوج کا انخلا پیر کی شب دیر سے مکمل ہوگیا اور افغانستان کی سرزمین سے آخری امریکی فوجی طیارے میں سوار ہوکر ملک چھوڑ گیا۔

یوں امریکی انخلا کے لیے صدر جو بائیڈن کی مقرر کردہ 31 اگست کی تاریخ سے کچھ گھنٹے قبل ہی امریکہ کی طویل ترین جنگ اپنے اختتام کو پہنچی۔

جنگ اور انخلا کے اختتام کا اعلان کرتے ہوئے امریکی سینٹرل کمانڈ کے سربراہ جنرل فرینک مک کینزی نے کہا آخری امریکی طیارے کابل ہوائی اڈے سے امریکی وقت پیر کی دوپہر تین بج کر 29 منٹ (کابل میں رات 12 بجے سے ایک منٹ پہلے) پر اڑے۔

انہوں نے کہا کہ کچھ امریکی شہری افغانستان میں رہ گئے ہیں اور ان کا ماننا ہے کہ وہ ملک چھوڑ سکیں گے۔

امریکی وزیر خارجہ اینٹنی بلکن نے پیچھے رہ جانے والے امریکیوں کی تعداد 200 سے کم بتائی ’ممکنہ طور پر سو کے قریب‘ اور کہا کہ ان کا محکمہ انہیں نکالنے کے لیے کام جاری رکھے گا۔

امریکا کا اپنے شہریوں اور افغان کی مدد کا وعدہ

امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن کا کہنا ہے کہ امریکا امریکی، افغان اور دیگر ایسے افراد کی مدد کے لیے اپنی کوششیں جاری رکھے گا، جو افغانستان سے نکلنا چاہتے ہیں۔ ایک پریس کانفرنس کے دوران امریکی وزیر خارجہ نے کہا کہ تقریباً 200 امریکی شہری اب بھی افغانستان میں پھنسے ہوئے ہو سکتے ہیں۔

 بلنکن نے کہا کہ کابل میں امریکی سفارتخانہ مستقبل قریب تک بند رہے گا اور وہ امریکی سفارت کار جو کابل کے سفارت خانے میں کام کیا کرتے تھے، اب وہ قطر کے دارالحکومت دوحہ میں موجود رہیں گے۔۔‘

آخری طیارے میں بچے ہوئے فوجیوں کے ساتھ ہی کابل میں امریکی سفیر بھی سوار ہوئے اور امریکا روانہ ہو گئے۔ امریکی حکام کا کہنا ہے کہ اب بھی بہت سے لوگ افغانستان میں پھنسے ہوئے ہیں جنہیں وہ وہاں سے نکالنا چاہتا ہے اور اس کی یہ کوششیں آگے بھی جاری رہیں گی۔

 انہوں نے فوج کی سربراہی میں ہونے والے انخلا کے مشن کو تاریخی اور بہادر قرار دیا اور کہا کہ امریکہ پیچھے رہ جانے والے شہریوں اور ملک سے نکلنے کے خواہش مند افغان شہریوں کی مدد کے لیے کام کرتا رہے گا۔

انہوں نے اعلان کیا کہ امریکہ افغانستان کے ساتھ سفارت کاری اب قطری دارالحکومت دوحہ سے کرے گا، اس میں قونصل خانے کا کام اور انسانی بنیادوں پر امداد شامل ہے۔

کا کہنا تھا: ’امریکہ کے افغانستان سے تعلقات کا نیا باب اب شروع ہوا ہے۔ یہ ایسا ہے جس میں ہم سفارت کاری پر زور دیں گے۔

امریکہ  اب دوحہ سے کرے گا سفارت کاری 

امریکہ افغانستان سے اپنی فوجی افواج اور اہلکاروں کا انخلا مکمل کرنے کے بعد، اس ملک کے لیے اپنے سفارتی کام قطر کے دارالحکومت دوحہ سے چلائے گا۔ امریکی وزیر خارجہ انتونی بلنکن نے پیر کو ایک پریس کانفرنس کے دوران یہ اطلاع دی۔ مسٹر بلنکن نے کہا کہ ’’ہم نے کابل میں اپنی سفارتی موجودگی معطل کر دی ہے اور اسے دوحہ، قطر منتقل کر دیا ہے۔ اس سلسلے میں جلد ہی کانگریس کو اس سے مطلع کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا ’’ہم دوحہ سے افغانستان کے لئے سفارت خانے کے معاملوں، انسانی امداد سے متعلق کاموں کوچلائیں گے، طالبان کے ساتھ رابطے اور پیغام دینے سے متعلق ہم آہنگی کے لئے اتحادیوں، شراکت داروں، علاقائی اور بین الاقوامی فریقین کے ساتھ مل کر کام کریں گے‘‘۔

طالبان کا جشن 

امریکا نے افغانستان سے انخلا ڈیڈلائن سے قبل ہی مکمل کیا اور وہاں موجود آخری امریکی فوجی بھی پیر کی رات 12 بجے سے پہلے ہی کابل ائیرپورٹ سے روانہ ہو گئے۔اس طرح امریکا کی 20 سالہ طویل جنگ کا خاتمہ ہوا ۔

طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ٹوئٹ کرتے ہوئے لکھا کہ ' آخری امریکی فوجی دستہ 12 بجے کابل ائیر پورٹ سے چلا گیا ہے اور ہمارے ملک نے اپنی مکمل آزادی حاصل کرلی ہے ، خدا کا شکر ہے'۔

افغانستان سے امریکہ کے آخری طیارے کے جاتے ہی منگل کی صبح کابل میں ہوائی فائرنگ اور آتش بازی کے مناظر دیکھنے کو ملے جب طالبان جنگجو اپنی فتح کا جشن مناتے رہے۔

روئٹرز کے مطابق پنٹاگون نے اعلان کیا کہ آخری امریکہ پرواز پیر کی رات کے آخری منٹ روانہ ہوئی اور اب تمام امریکی فوج سے ملک سے باہر ہیں۔

طالبان ترجمان نے بھی اعلان کرتے ہوئے ٹوئٹر پر کہا: ’آج رات 12 بجے باقی امریکی فوجی بھی کابل ایئرپورٹ چھوڑ گئے اور ہمارے ملک کو مکمل آزادی مل گئی۔

اقوام متحدہ کا ہنگامی اجلاس

اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل نے پیر کو ایک ہنگامی اجلاس میں قراردار منظور کی جس میں طالبان پر زور دیا گیا کہ وہ اپنے وعدے پر قائم رہیں کہ ملک چھوڑنے والوں کو جانے کی مکمل آزادی ہوگی۔

تاہم اس قرارداد میں انخلا کے لیے کابل میں محفوظ زون قائم کرنے کا کوئی ذکر نہیں تھا جس کے بارے میں فرانسیسی صدر ایمانوئل میکروں گذشتہ روز کہہ چکے تھے۔ برطانیہ، امریکہ اور فرانس کی جانب سے پیش کی گئی قرارداد کو 13 ووٹوں سے منظور کیا گیا۔

اس میں کہا گیا سکیورٹی کونسل یہ توقع کرتی ہے کہ طالبان ’افغانستان سے جانے والے تمام افغانوں اور غیر ملکیوں کو محفوظ اور منظم طریقے سے انخلا کرنے دیں گے۔‘ قرارداد میں امید ظاہر کی گئی کہ طالبان اپنے تام وعدوں پر پورا اتریں گے جن میں 27 اگست کا ان کا بیان بھی شامل ہے کہ افغانوں کو کسی بھی راستے بیرون ملک سفر کرنے کی اجازت ہوگی۔

اس کے علاوہ طالبان پر زور دیا گیا ہے کہ وہ خواتین، بچوں اور اقلیتوں کے حقوق کی خلاف ورزی نہ کریں اور أفغانستان میں تمام فریقین بشمول خواتین کے ایک منظم اور انکلسیو حکومت قائم کریں۔ قرارداد میں یہ بھی کہا گیا کہ طالبان ’افغانستان کی سرزمین کو کسی ملک کو دھمکانے یا حملے کے لیے استعمال نہ ہونے دیں اور نہ ہی اسے دہشت گردوں کو پناہ دینے یا ٹریننگ یا مالی معاونت کے لیے