افغانستان: یونیورسٹیز کھل گئیں مگرکلاس روم میں پڑ گئے پردے

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 07-09-2021
کابل۔ تعلیم کا آغاز نئے انداز میں
کابل۔ تعلیم کا آغاز نئے انداز میں

 

 

طالبان کے کنٹرول سنبھالنے کے بعد افغانستان میں یونیورسٹیز میں دوبارہ تعلیم کا آغاز ہوگیا۔

 سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی تصاویر کے مطابق بعض کلاسز میں طلبہ اور طالبات کے درمیان پردہ لگایا گیا ہے۔

- کابل، قندھار اور ہرات میں طالبات کو الگ کلاسز میں پڑھانے یا کیمپس کے مخصوص مقامات تک محدود کرنے سے متعلق اطلاعات ملی ہیں۔ اس حوالے سے طالبان کی جانب سے کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا

افغانستان میں تقریبا ایک ماہ سے جاری ہنگامے کے درمیان کالجوں اور یونیورسٹیوں میں پڑھائی شروع ہو گئی ہے۔ طالبان نے لڑکیوں کو تعلیم حاصل کرنے کی اجازت دی ہے ، لیکن انہیں سخت پابندیوں سے بھی گزرنا پڑتا ہے۔

پیر کو ، مزار شریف میں واقع ابن سینا یونیورسٹی کی ایک تصویر منظر عام پر آئی ہے۔ اس میں پردے کے ذریعے کلاس کو 2 حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ایک طرف لڑکے بیٹھے ہیں اور دوسری طرف لڑکیاں۔

خواتین نے برقع پہننا شروع کر دیا افغانستان میں طالبان کی حکومت سے پہلے بہت کم خواتین کو سڑکوں پر برقعہ اور نقاب پہنے دیکھا گیا تھا۔ اب طالبان کے قبضے کے بعد تقریبا تمام خواتین نے اسے پہنا ہوا ہے۔ طالبان نے خواتین سے کہا ہے کہ وہ نقاب پہنیں جو چہرے کا زیادہ تر حصہ ڈھانپے۔

خواتین اساتذہ ہی لڑکیوں کو پڑھائیں گی لڑکیاں

 طالبان نے 15 اگست کو کابل پر قبضہ کرنے کے بعد ہی لڑکیوں کی تعلیم کے حوالے سے کچھ احکامات دیے تھے۔ حکم کے مطابق لڑکے اور لڑکیاں ایک ہی کلاس میں نہیں پڑھ سکتے۔ آرڈر میں کہا گیا کہ کالج-یونیورسٹی کو لڑکوں اور لڑکیوں کے لیے الگ الگ کلاسز رکھنی ہوں گی۔

صرف خواتین ٹیچر لڑکیوں کو پڑھائیں گی۔ اس لیے خواتین اساتذہ کو بھرتی کرنا ہوگا۔ اس کی غیر موجودگی میں ، ایک بزرگ مرد استاد لڑکیوں کو پڑھا سکتا ہے ، لیکن اس سے پہلے اس کا ریکارڈ اچھی طرح چیک کرنا ہو گا۔

طالبان کی جانب سے تعلیمی اداروں پر عائد نئی پابندیوں کے بعد دارالحکومت کابل کی یونیورسٹیوں میں طلبہ کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے۔

افغانستان میں نئے تعلیمی سال کے پہلے دن کابل کی یونیورسٹیوں میں پروفیسر اور طلبہ انتہائی کم تعداد میں موجود تھے۔

طالبان نے خواتین کو تعلیم حاصل کرنے کی اجازت چند شرائط کی بنیاد پر دی ہے جن کے تحت عبایہ پہننا لازمی ہے جبکہ کلاس رومز میں خواتین اور مرد طلبہ کے بالکل علیحدہ بیٹھنے کا انتظام کیا گیا ہے۔

 کابل میں غرجستان یونیورسٹی کے ڈائریکٹر نور علی رحمانی نے تقریباً خالی کیمپس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’ہمارے طلبہ یہ (پابندیاں) قبول نہیں کرتے اور ہمیں یونیورسٹی بند کرنی پڑے گی۔

انہوں نے واضح کیا کہ ’ہماری طلبہ حجاب پہنتی ہیں، نقاب نہیں کرتیں-

طالبان نے یونیورسٹی اور کالج جانے والی خواتین طلبہ کے لیے پردے کی شرط میں عبایہ پہننا اور چہرے کا نقاب لازمی قرار دیا ہے جس سے آنکھوں کے علاوہ پورا چہرہ چھپ جائے۔

طالبان کی جانب سے اتوار کو نجی کالجوں اور یونیورسٹیوں کے لیے تفصیلی احکامات جاری کیے گئے تھے جس میں کہا گیا تھا کہ خواتین اور مرد طلبہ کی علیحدہ کلاسز ہوں گی، ایسا ممکن نہ ہونے کی صورت میں کلاس روم میں پردہ لگا کر مرد اور خواتین طلبہ کو علیحدہ کیا جائے۔

غرجستان یونیورسٹی کے ڈائریکٹر نور علی رحمانی کا کہنا تھا کہ ’ہم اس لیے قبول نہیں کر سکتے کیونکہ ایسا کرنا بہت مشکل ہوگا۔‘ انہوں نے کہا کہ یہ حقیقی اسلام نہیں ہے اور نہ ہی قران ایسا کرنے کا حکم دیتا ہے۔

 طالبان کی جانب سے جاری نئے احکامات کے مطابق خواتین طلبہ کو صرف خواتین یا پھر عمر رسیدہ مرد اساتذہ ہی پڑھا سکیں گی جبکہ خواتین علیحدہ راستے سے یونیورسٹی یا کالج میں داخل ہوں گی۔

 خواتین طلبہ کی کلاس مردوں سے پانچ منٹ پہلے ختم کرنے کا کہا گیا ہے کہ تاکہ خواتین اور مردوں کو آپس میں ملنے جلنے سے روکا جا سکے۔

 یہ ہدایات ان تمام نجی کالجز اور یونیورسٹیوں کے لیے جاری کی گئی ہیں جن کی تعداد میں سنہ 2001 میں طالبان کا پہلا دور ختم ہونے کے بعد تیزی سے اضافہ ہوا تھا۔ تاہم سرکاری یونیورسٹیوں سے متعلق طالبان نے فی الحال کوئی احکامات نہیں جاری کیے۔

تاہم چند طلبہ کو یہ سن کر تسلی ہوئی ہے کہ طالبان کے نئے دور حکومت میں خواتین یونیورسٹی میں تعلیم جاری رکھ سکیں گی۔ افغانستان میں خواتین کے لیے سکالر شپ پروگرم چلانے والی خاتون زہرہ برمن نے سوشل میڈیا پر کہا کہ ان کی چند طلبہ سے بات ہوئی ہے اور وہ یونیورسٹی واپس جانے پر خوش ہیں اگرچہ انہیں عبایہ پہننا پڑ رہا ہے۔ زہرہ برمن کا کہنا تھا کہ طالبان کا خواتین کے لیے یونیورسٹیاں کھولنا ایک اہم پیش رفت ہے، بات چیت جاری رکھیں گے تاکہ دیگر حقوق اور آزادیوں پر بھی آمادہ ہو سکیں۔

کابل میں ابن سینا یونیورسٹی کے ترجمان جلیل تدجلیل نے کہا کہ خواتین اور مردوں کے علیہدہ داخلے کے انتظامات کر دیے گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ طالبان نے جو فیصلہ مسلط کیا ہے اسے قبول یا مسترد کرنے کا انہیں حق حاصل نہیں ہے۔

عام طور پر تعلیمی سال کے پہلے دن کالجوں اور یونیورسٹیوں میں طلبہ کا رش دکھائی دیتا ہے لیکن پیر کے روز کابل کے تعلیمی ادارے خالی تھے۔ غرجستان یونیورسٹی کے ڈائریکٹر نور علی رحمانی نے بتایا کہ گزشتہ سال کے مقابلے میں صرف دس سے بیس فیصد طلبہ آئے ہیں۔ انہوں نے اپنے اندازے کے مطابق کہا کہ اگست میں طالبان کے قبضے کے بعد 30 فیصد تک طلبہ افغانستان سے چلے گئے ہیں۔