افغانستان:طالبان کا تشدد ۔شہریوں کے لئےعذاب

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 29-07-2021
تشدد کا نیا طوفان
تشدد کا نیا طوفان

 

 

 واشنگٹن :افغانستان میں حالات کے بارے میں دنیا جانتی ہے ،طالبان اور افغا ن فورسیز کے درمیان جنگ جاری ہے۔ایک جانب سفارتی مہم بھی جاری ہے۔لیکن اقتدار پر قبضہ کے لئے طاقت کا مظاپرہ اب افغان عوام کے لئے بہت مہنگا ثابت ہورہا ہے۔ اس تشدد میں سب سے بڑا خطرہ عوام کو ہورہا ہے۔ جنہں اس کی قیمت جان دےکر چکانی پڑ رہی ہے۔

 اس بارے میں اقوامِ متحدہ کی ایک حالیہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ رواں سال کے جنوری سے جون تک کے ابتدائی چھ ماہ کے دوران افغانستان میں پر تشدد واقعات میں شہریوں کی ہلاکتوں اور زخمی ہونے کے تناسب میں گزشتہ سال کے مقابلے میں 47 فی صد اضافہ ہوا ہے۔

 مبصرین کا کہنا ہے کہ اگر افغان حکومت اور طالبان جلد کسی سیاسی حل پر متفق نہیں ہوئے تو افغانستان کے حالات خطرناک حد تک خراب ہو سکتے ہیں۔

اقوامِ متحدہ نے افغانستان کے حوالے سے ایک رپورٹ جاری کی تھی۔ اس رپورٹ کے مطابق رواں برس جنوری سے جون کے درمیان 1659 افغان شہری ہلاک جب کہ 3254 زخمی ہوئے۔

 اقوام متحدہ کی رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ اگر تشدد کم نہ ہوا تو 2021 ء افغان تنازعہ کا مہلک ترین سال ثابت ہوسکتا ہے۔

فہیم سادات کا کہنا تھا کہ اقوامِ متحدہ کی رپورٹ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ افغانستان میں لڑائی میں اضافہ ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پہلے لڑائی اضلاع کی حد تک ہو رہی تھی۔ اب جب کہ طالبان نے تمام شہروں اور صوبائی مراکز کا گھیراؤ کر لیا ہے اس لیے خدشہ ہے کہ شہریوں کی ہلاکتوں میں اضافہ ہو سکتا ہے۔

 فہیم سادات کے مطابق موجودہ صورتِ حال میں افغانستان میں قیامِ امن کی ضرورت مزید بڑھ گئی ہے۔ اگر لڑائی طول پکڑتی ہے تو شہری علاقوں میں زیادہ آبادی کی وجہ سے اموات بہت زیادہ ہو سکتی ہیں۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اقوامِ متحدہ کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ طالبان اور القاعدہ کے درمیان روابط بحال ہیں اور تعطل کے واضح اشارے نہیں ملے۔

 دوسری جانب طالبان نے اقوامِ متحدہ کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ کو مکمل طور پر رد کر دیا ہے۔ طالبان نے ایک بیان میں کہا ہے کہ انہوں نے کبھی بھی اپنی کارروائیوں میں عام شہریوں کو نشانہ نہیں بنایا۔ مبصرین کے مطابق یکم مئی سے افغانستان میں پر تشدد کارروائیوں میں اضافہ ہو گیا ہے۔

 طالبان کا کہنا ہے کہ انہوں نے 200 سے زائد اضلاع کا مکمل کنٹرول حاصل کر لیا ہے۔ تاہم افغان حکومت کا کہنا ہے کہ بہت سارے اضلاع تکنیکی حکمتِ عملی کے تحت چھوڑے گئے ہیں اور بہت جلد واپس حاصل کر لیے جائیں گے۔ دوسری جانب مبصرین کا کہنا ہے کہ افغان حکومت اور طالبان کے درمیان اعتماد کا فقدان مزید بڑھ گیا ہے جسے سیاسی طور پر حل کرنے کی اشد ضرورت ہے۔

 واضح رہے کہ دوحہ امن معاہدے کے تحت طالبان نے القاعدہ سے اپنے تعلقات ختم کرنے کی یقین دہانی کرائی تھی۔ اس حوالے سے اسفندیار میر کا کہنا تھا کہ طالبان کی اس بارے میں پالیسی مبہم ہے۔ اسفندیار میر نے دعویٰ کیا کہ طالبان نے القاعدہ جنگجوؤں کو کہا ہے کہ وہ افغانستان میں لو پروفائل رہیں۔

اقوامِ متحدہ نے ایک اور رپورٹ میں افغانستان میں تحریک ِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے چھ ہزار تربیت یافتہ جنگجوؤں کی موجودگی کا بھی ذکر کیا ہے جو کہ زیادہ تر پاکستان کی سرحد سے قریب ترین افغانستان کے علاقے ننگرہار میں موجود ہیں۔ ۰

 ڈاکٹر اسفندیار میر مزید کہنا تھا کہ امریکہ کے افغانستان سے انخلا نے طالبان کے حوصلے بہت بڑھا دیے ہیں۔ اس کا اثر افغانستان سے باہر جنوبی ایشیا، مشرقِ وسطیٰ اور افریقہ میں دیگر جہادی تنظیموں پر بھی پڑے گا۔ 

انہوں نے کہا کہ طالبان یہ ضرور کہتے ہیں کہ افغانستان کی سر زمین کسی دوسرے مللک کے خلاف استعمال نہیں ہو گی۔ البتہ ان کی حکمتِ عملی بیرونِ ملک سے آنے والے جنگجوؤں کے حوالے سے واضح نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ حال ہی میں طالبان کے سرکردہ رہنماؤں نے کہا تھا کہ وہ کسی کے کہنے پر القاعدہ یا دوسرے گروہوں سے تعلقات خراب نہیں کریں گے