افغانستان:صحافیوں پرمظالم بند ہوں۔ ہیومن رائٹس واچ

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | 2 Years ago
کون کرے گا انصاف
کون کرے گا انصاف

 

 

نیویارک:انسانی حقوق کے حوالے سے کام کرنے والی عالمی تنظیم ’ہیومن رائٹس واچ‘ (ایچ آر ڈبلیو) کا کہنا ہے کہ افغانستان میں طالبان حکام صحافیوں کو گرفتار کر رہے ہیں، تشدد کر رہے ہیں اور ان پر نئی پابندیاں لگا رہے ہیں۔

جمعرات کو جاری ایک بیان میں ایچ آر ڈبلیو نے طالبان سے مطالبہ کیا کہ وہ تشدد بند کریں، پابندیاں ہٹائیں اور مظاہرین اور صحافیوں پر تشدد کرنے والوں کے خلاف کارروائی کو یقینی بنائیں۔

ایچ آر ڈبلیو کی جانب سے مذمتی بیان ایک ایسے وقت پر جاری کیا گیا ہے جب افغان اخبار ’اطلاعات روز‘ کے دو صحافیوں تقی دریابی اور نعمت نقدی کو کابل میں ایک مظاہرے کے دوران طالبان کی جانب سے حراست میں لیا گیا اور ان پر تشدد کیا۔

ایچ آر ڈبلیو کا کہنا ہے کہ ’رپورٹرز کابل میں خواتین کے ایک مظاہرے کی کوریج کررہے تھے جس میں وہ طالبان سے اپنے حقوق کی پامالی ختم کرنے کا مطالبہ کر رہی تھیں۔

ایچ آر ڈبلیو کے مطابق ان رپورٹروں کی گرفتاری 7 ستمبر کو عمل میں آئی تھی اور انہیں کابل کے ایک پولیس سٹیشن میں لے جا کر علیحدہ کمروں میں رکھا گیا جہاں ان پر تاروں سے شدید تشدد کیا گیا۔

 دونوں رپورٹرز کو گزشتہ روز رہا کیا گیا ہے، ہسپتال میں ان کا علاج جاری ہے۔

 ان دو صحافیوں کی ایک تصویر سوشل میڈیا پر بھی وائرل ہوئی ہے جس میں ان کے جسم پر تشدد کے نشانات دیکھے جا سکتے ہیں۔ یہ تصویر ’اطلاعات روز‘ کے ناشر ذکی دریابی نے بھی ٹویٹ کی جس میں لکھا تھا کہ ’افغانستان کی صحافتی تاریخ ہمیشہ یاد رکھے گی، طالبان کابینہ کے اعلان کا پہلا دن اور اطلاعات روز کے صحافیوں کی یہ تصویر جن پر طالبان کی جانب سے تشدد کیا گیا۔

 

 اس حوالے سے ایک ویڈیو بھی سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی جس میں تشدد سہنے والے صحافیوں کو نڈھال حالت میں دیکھا جاسکتا ہے۔

 

 گزشتہ روز افغانستان میں یورو نیوز کی رپورٹر اینالیز بورجس نے بھی طالبان کی جانب سے صحافیوں پر سختی کا شکوہ کیا تھا۔

 اپنی ایک ٹویٹ میں انہوں نے کہا تھا کہ ’میرے فکسر کو کابل میں ہونے والے احتجاج کی اجازت مانگنے پر طالبان نے حراست میں لے لیا ہے۔

ہم کوئی فلم نہیں بنارہے تھے اور نہ کسی کا انٹرویو لے رہے تھے بلکہ ہم تو صرف اجازت مانگ رہے تھے۔

تاہم انالیز کے پروڈیوسر و فکسر کو تین گھنٹے بعد رہا کردیا گیا تھا لیکن یورو نیوز کی صحافی کے مطابق نہ صرف ان کو مارا گیا بلکہ ان کا فون اور بٹوہ بھی چھین لیا گیا۔

ان مظاہروں کے بعد طالبان کی جانب سے ایک حکم نامہ جاری کیا گیا جس کے مطابق احتجاجی مظاہروں سے قبل وزارت انصاف سے پیشگی اجازت لینی ہوگی۔ طالبان کی جانب سے یہ تنبیہ بھی کی گئی کہ اس حکم نامے کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف سخت قانونی چارہ جوئی کی جائے گی۔