افغانستان:ہندوستانی باشندوں کی واپسی کے لیے خصوصی فلائیٹ

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | 2 Years ago
مزار شریف  ایر پورٹ
مزار شریف ایر پورٹ

 

 

کابل:افغانستان میں طالبان اور افغان فورسز کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کے پیش نظر چین مزار شریف سے اپنے شہریوں کو واپس لانے کے لیے آج ایک خصوصی پرواز روانہ کر رہا ہے۔

منگل کو افغانستان کے شہر مزار شریف میں انڈین قونصل خانے کے آفیشل ٹوئٹر اکاؤنٹ پر ایک ٹویٹ میں بتایا گیا ہے کہ ’مزار شریف سے دہلی کے لیے ایک خصوصی پرواز روانہ ہو رہی ہے۔

مزار شریف میں یا اس کے اطراف میں موجود ہندوستانی شہریوں سے درخواست ہے کہ آج شام روانہ ہونے والی خصوصی پرواز کے ذریعے ہندوستان واپس آ جائیں۔‘

(1/2) A special flight is leaving from Mazar-e-Sharif to New Delhi. Any Indian nationals in and around Mazar-e-Sharif are requested to leave for India in the special flight scheduled to depart late today evening.

 ٹویٹ میں کہا گیا ہے کہ ’جو انڈین شہری خصوصی پرواز سے واپس آنا چاہتے ہیں وہ فوری طور پر اپنا مکمل نام، پاسپورٹ نمبر، معیاد ختم ہونے کی مدت وٹس ایپ کے ان نمبرز پر بھیج سکتے ہیں۔

افغان فورسیز ملک کا دفاع کریں

 دوسری جانب امریکہ کا کہنا ہے کہ یہ افغان سکیورٹی فورسز پر منحصر ہے کہ وہ طالبان کی جانب سے چھٹے صوبائی دارالحکومت پر قبضے کے بعد ملک کا دفاع کریں۔

 صدر جو بائیڈن نے کہا ہے کہ امریکہ کا فوجی مشن افغانستان میں 31 اگست کو ختم ہو جائے گا، افغانوں کو اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنا ہوگا اور وہ امریکہ کی ایک اور نسل کو 20 سالہ جنگ کے لیے مختص نہیں کریں گے۔

پیر کو محکمہ خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ’افغانستان کے لیے امریکہ کے خصوصی نمائندے زلمے خلیل زاد قطر کے لیے روانہ ہو گئے ہیں جہاں وہ طالبان پر زور دیں گے کہ وہ اپنی جارحیت ختم کریں اور سیاسی حل کے لیے بات چیت کریں۔

 تین روزہ مذاکرات میں حکومتی نمائندے اور کثیرالجہتی ادارے تشدد میں کمی، جنگ بندی اور طاقت کے زور پر حکومت قبول نہ کروانے پر زور دیں گے۔

طالبان نے پیر کو افغانستان کے چھٹے صوبائی دارالحکومت ایبک پر بھی قبضہ کر لیا ہے۔ ایبک میں قانون ساز ضیاالدین ضیا نے بتایا کہ ’اس وقت طالبان پولیس ہیڈ کوارٹرز اور کمپاؤنڈز پر قبضے کے لیے افغان فورسز سے لڑ رہے ہیں۔ دارالحکومت کے بہت سے علاقے طالبان کے قبضے میں جا چکے ہیں۔

پینٹاگون کے ترجمان جان کربی کا کہنا ہے کہ امریکہ کو صورتحال پر گہری تشویش ہے لیکن افغان سکیورٹی فورسز کے پاس شدت پسند گروپ سے لڑنے کی اہلیت ہے۔.

جب ان سے پوچھا گیا کہ اگر افغان سکیورٹی فورسز اس لڑائی میں اپنی اہلیت نہ دکھا سکیں تو امریکی فوج کیا کر سکتی ہے، کربی نے جواب دیا کہ ’زیادہ کچھ نہیں۔‘ امریکی محکمہ خارجہ نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ ’طالبان کی بڑھتی جارحیت جس کے نتیجے میں شہری ہلاک ہو رہے ہیں اور مبینہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر گہری تشویش ہے۔ مذاکرات کے ذریعے امن ہی جنگ ختم کرنے کا واحد راستہ ہے۔

‘ افغانستان میں طویل عرصے سے جاری کشیدگی میں رواں سال مئی میں اس وقت اضافہ دیکھنے میں آیا جب امریکی قیادت میں فوجی اتحاد نے ملک سے انخلا کے آخری مرحلے کا آغاز کیا جو رواں ماہ کے آخر تک مکمل ہو جائے گا۔