افغانستان: کابل کے بجائے قندھار بن سکتا ہے راجدھانی

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | 2 Years ago
طالبان کا نیا فیصلہ
طالبان کا نیا فیصلہ

 

 

کابل : اب کابل نہیں رہے گا راجدھانی بلکہ قندھار کو ملے گا یہ اعزاز ۔ یہ ہے طالبان کا پلان۔

  افغان طالبان کے رہنما اور کلچرل کمیشن کے رکن عبدالقہار بلخی کا کہنا ہے کہ سیاسی حکومت کے قیام کے ساتھ ساتھ اس پر بھی بات ہو رہی ہے کہ ملک کا دارالحکومت کابل ہی رہے گا یا پھر طالبان گروپ کی جائے پیدائش قندہار کو دارالحکومت کا درجہ دیا جائے گا۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے اتوار کو الجزیرہ ٹی وی کو دیے جانے والے اپنے انٹر ویو میں کیا ہے۔

انہوں نے سیاسی حکومت کے حوالے سے کہا ہے کہ صلاح مشورے جاری ہیں اور بلاشبہ اس نظام میں تمام فریق شامل ہوں گے۔

ان کے مطابق: ’ہم بات چیت کر رہے ہیں اور ہمارے درمیان تعلق قائم ہے۔

سکیورٹی انتظامات کے معاملے میں امریکیوں کے ساتھ تعلقات قائم ہیں۔ بیرونی چوکیاں ہمارے زیر انتظام ہیں اور داخلی چوکیوں کا کنٹرول امریکہ کی فورسز کے پاس ہے اور وہ ایک دوسرے کے ساتھ مسلسل رابطے میں ہیں۔‘

ہوائی اڈوں خصوصا کابل کے ہوائی اڈے پر پیش آنے والے حالیہ واقعات پر ان کا کہنا تھا کہ ’اس وقت جس طرح لوگ ہوائی اڈے کی طرف بھاگ رہے ہیں یہ بڑے افسوس کی بات ہے۔

میرا خیال ہے کہ صورت حال کہیں بہتر ہونی چاہیے تھی کیونکہ ہم نے ہر کسی کے لیے عام معافی کا اعلان کیا ہے۔ سکیورٹی فورسز کے لیے اعلیٰ سے نچلی سطح تک اور خوف اور ہیجان کی ۔جو فضا پیدا ہوئی ہے یہ بے بنیاد ہے۔‘

افغان طالبان کے رہنما عبدالقہار بلخی کا کہنا ہے کہ ’صورت حال میں اتنی تیزی سے تبدیلی آئی کہ تمام لوگ حیران رہ گئے۔

جب ہم کابل میں داخل ہوئے تو اس کی پیشگی منصوبہ بندی نہیں کی گئی تھی کیونکہ ہم نے ابتدائی طور پر اعلان کیا تھا کہ ہم کابل میں داخل نہیں ہونا چاہتے۔

ہم کابل میں داخل ہونے سے پہلے سیاسی تصفیہ اورایسی مخلوط حکومت چاہتے تھے جس میں سب شامل ہوں لیکن ہوا یہ کہ سکیورٹی فورسز چلی گئیں اور انہوں نے اپنی جگہ چھوڑ دی۔‘

عبدالقہار بلخی نے الجزیرہ ٹی وی کو انٹرویو میں بتایا کہ ’ہم اپنی فورسز کو یہ کہنے پر مجبور ہو گئے کہ وہ کابل میں داخل ہو جائیں۔

خواتین کے خقوق کے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ خواتین کے حقوق کے بارے میں کوئی ابہام نہیں ہے۔ نہ صرف خواتین بلکہ مرد حضرات اور بچوں کے حقوق کے معاملے میں بھی کوئی ابہام نہیں۔ ’اس وقت ہمیں ایسی صورت حال کا سامنا ہے جس کے حوالے سے امید ہے کہ صلاح مشورے کے دوران وضاحت ہو جائے گی کہ یہ حقوق کیا ہیں‘۔

انہوں نے بتایا کہ ہماری اولین ترجیح اپنی صفوں میں نظم و ضبط ہے دوسروں پر قانون نافذ کرنا نہیں بلکہ قانون کو پہلے اپنے اوپر نافذ کرنا اور اس کے بعد باقی معاشرے کے لیے مثال پیش کرنا اولین ترجیح ہے۔

ان کے مطابقسب سے پہلے ہماری اور ہمارے ارکان کی باری ہے اور اگر وہ کسی کارروائی میں ملوث پائے گئے تو سب سے پہلے ان کے خلاف قانونی کارروائی ہو گی۔‘

عبدالقہار بلخی کا کہنا ہے کہ وہ نہیں سمجھتے کہ لوگ طالبان کو دہشت گرد خیال کرتے ہیں۔ ان کے مطابق دہشت گردی کے خلاف جنگ محض ایک اصطلاح تھی جسے امریکہ نے تراشا اور جو لوگ مطابقت نہیں رکھتے تھے انہیں دہشت گرد قرار دے دیا گیا۔