افغانستان :صحت کا نظام تباہی کے دہانے پر،عالمی امدادی ادارہ

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 01-10-2021
صحت کا نظام تباہی کے دہانے پر
صحت کا نظام تباہی کے دہانے پر

 

 

نیویارک: افغانستان کے حالات سیاسی اور سفارتی طور پر تو بحران کا شکار ہیں لیکن بات اگر صحت اور دیگر سروسیز کی جائے تو ملک میں حال بے حال ہے۔ آنے والے دن ملک میں بدترین صورتحال کا گواہ بن سکتے ہیں۔

اب ملک میں دواوں اور دیگر میڈیکل ساز و سامان کی کمی شروع ہوچکی ہے۔ خطرے کی گھنٹی بہت پہلے ہی بجا دی گئی تھی او اس کا اعتراف کیا جارہا ہے۔

عالمی امدادی ادارے ریڈ کراس کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے جمعرات کو خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ تنازعات سے متاثرہ ملک افغانستان میں صحت سے متعلق دو ہزار سے زیادہ سہولیات بند کردی گئی ہیں اور ملک کا صحت کا نظام تباہی کے دہانے پر ہے۔انٹرنیشنل فیڈریشن آف ریڈ کراس اینڈ ریڈ کریسنٹ سوسائٹیز (آئی ایف آر سی) نے خبردار کیا ہے کہ فنڈنگ کی شدید کمی افغانستان کے صحت کے نظام کو تباہی دہانے پر دھکیل رہی ہے۔

آئی ایف آر سی کے ایشیا پیسیفک کے ڈائریکٹر الیگزینڈر میتھیو نے کابل میں ایک نیوز کانفرنس کے دوران بتایا کہ ’لوگ کچھ مزید ہفتوں تک تنخواہوں کے بغیر کام کرنے پر راضی ہو سکتے ہیں۔ لیکن ایک بار دوائیں بالکل ختم ہوگئیں، آپ لائٹس تک جلانے کے قابل نہیں رہتے اور آپ کے پاس آپ کے کلینک میں آنے والے کو پیش کرنے کے لیے کچھ نہیں ہے تو وہ دروازے بند کر دیں گے۔‘

چار دہائیوں سے زیادہ کی جنگ سے تباہ حال افغان معیشت گذشتہ ماہ طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد پابندیوں اور غیر ملکی امداد میں کٹوتی کی وجہ سے آخری سانسیں لے رہی ہے۔اس صورتحال نے صحت کے شعبے کو خاص طور پر بھاری نقصان پہنچایا ہے جو بنیادی طور پر طالبان کے اقتدار میں آنے سے پہلے اندرونی فنڈنگ کے ساتھ این جی اوز کے تحت چلایا جاتا تھا۔ 

افغانستان کے چار روزہ دورے کے اختتام پر میتھیو نے اے ایف پی کو بتایا کہ ’صحت کی دو ہزار سے زیادہ سہولیات بند ہو چکی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ملک میں 20 ہزار سے زیادہ ہیلتھ ورکرز اب کام نہیں کر رہے یا پھر بغیر تنخواہ کے کام کر رہے ہیں۔ ان میں سات ہزار سے زیادہ خواتین بھی شامل ہیں۔

 ویکسین کی ایکسپائری

عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے گذشتہ ہفتے خبردار کیا تھا کہ ملک کی صحت کی سہولیات کا پانچویں سے کم حصہ مکمل طور پر فعال ہے اور دو تہائی ضروری ادویات ختم ہوچکی ہیں۔ اس کے خاص طور پر کووڈ 19 کے وبائی مرض کی روک تھام کے سلسلے میں سنگین نتائج نکل سکتے ہیں۔

میتھیو کا کہنا ہے کہ ایک ایسے ملک میں جہاں صرف ایک فیصد آبادی کو ویکسین ملی ہے وہاں دس لاکھ سے زیادہ خوراکیں تقسیم ہونی باقی ہیں جو رواں سال کے آخر تک زائد المیعاد ہو جائیں گی۔ افغان ریڈ کریسنٹ طالبان کے زیر قبضہ علاقوں سمیت کئی علاقوں میں دہائیوں سے کام کر رہا ہے اور ملک بھر میں 140 پرائمری ہیلتھ کلینک چلاتا ہے۔

میتھیو نے کہا کہ وہ کلینکس جنہوں نے سال کے آغاز سے تقریبا 10 لاکھ افراد کی مدد کی ہے صرف وہ مکمل طور پر کام کر رہے ہیں لیکن صحت کی دیگر سہولیات کی بندش میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔خشک سالی سے لے کر خوراک کی شدید قلت اور بڑے پیمانے پر نقل مکانی جیسے افغانستان کو اوپر تلے درپیش بحرانوں میں یہ سب سے سنگین ہے۔

 اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ 18 ملین سے زیادہ افغان یعنی آدھی سے زیادہ آبادی کو امداد کی اشد ضرورت ہے جبکہ ایک تہائی کو قحط کا خطرہ ہے۔ بین الاقوامی برادری نے 1.2 ارب ڈالرز کی انسانی امداد کا وعدہ کیا ہے لیکن فنڈز کی فراہمی میں وقت لگتا ہے۔