افغانستان:کیا یورپ میں پناہ گزینوں کا دوسرا سیلاب لائے گا

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | 2 Years ago
ایک نیا بحران
ایک نیا بحران

 

 

کابل: افغانستان کا بحران ابتک اس سرزمین کے لیے مسئلہ نظر آرہا تھا لیکن اب ایسا لگ رہا ہے کہ اس کی قیمت دنیا خاص طور پر یوروپ کو چکانی پڑے گی۔

اب افغانستان سے لوگوں کا نکلنا شروع ہوچکا ہے۔ جن کے پاس پاسپورٹ نہیں ہیں وہ بھی ایر پورٹ پر دھرنا دئیے بیٹھے ہیں۔ سب کی یہی کوشش ہے کہ کسی نہ کسی جہاز میں جگہ مل جائے اور کسی نہ کسی یورپی ملک میں پناہ گزیں کا درجہ حاصل ہوجائے۔

اس بات کا احساس اب یورپ کو ہوگیا ہے کہ مشرقی وسطی کے بعد پناہ گزینوں کا ایک سیلاب افغانستان سے آسکتا ہے 

ترکی اور ایران کے درمیان موجود سرحدی دیوار ایک سفید سانپ جیسی دکھائی دیتی ہے جو ویران پہاڑوں کے درمیان سے گزر رہی ہے۔ تاحال یہ دیوار دونوں ممالک کے درمیان سرحد کے صرف ایک تہائی حصہ یعنی 540 کلو میٹر پر موجود جس کے باعث ایک بڑا حصہ ایسا ہے جہاں سے تارکین وطن رات کی تاریکی میں سرحد پار کر جاتے ہیں۔

اس راستے پر سے حالیہ دنوں میں گزرنے والے افراد کی تعداد ماضی کے مقابلے میں کافی مستحکم رہی ہے لیکن یورپی ممالک بشمول ترکی کو افغانستان میں طالبان کی حکومت آنے کے بعد اس صورت حال کے بدلنے کا ڈر ہے۔

سال 2015 میں شامی تارکین وطن کی یورپ آمد پر پیدا ہونے والے بحران کے بعد یورپی ممالک کے سربراہان افغانستان سے تارکین وطن کی بڑی تعداد کو یورپ آنے سے روکنا چاہتے ہیں۔ وہ صرف ایسے افراد کو آنے دینا چاہتے ہیں جنہوں نے افغان جنگ میں یورپی ممالک کی افواج کی مدد کی تھی۔

ان رہنماوں کی جانب سے افغان شہریوں کو پیغام دیا جا رہا ہے کہ ‘اگر آپ افغانستان کو چھوڑنا چاہتے ہیں تو کسی پڑوسی ملک چلے جائیں لیکن یہاں مت آئیں۔

اسی حوالے سے آسٹریا کے وزیر داخلہ کارل نہیمر کا کہنا ہے کہ ‘ہمارا ہدف یہی ہونا چاہیے کہ زیادہ تر افراد کو اس خطے میں ہی رکھا جائے۔

ان سے قبل کئی یورپی رہنما بھی اسی قسم کے بیانات دے چکے ہیں

اُدھر روسی میڈیا کا کہنا ہے کہ افغانستان سے ملک چھوڑ کر ازبکستان جانے والے پناہ گزینوں میں سے مزید 400 افراد کو ازبکستان نے داخلے کی اجازت دے دی ہے۔ 

روسی سرکاری ادارے ٹاس کی وساطت سے خبر دی ہے کہ ان افراد کو افغان سرحد کے قریب عارضی رہائش گاہوں میں رکھا جائے گا۔

یہ ابھی تک واضح نہیں ہو سکا کہ افغانستان سے اب تک کتنے افراد ملک چھوڑ کر ازبکستان پہنچ چکے ہیں۔ دوسری جانب ازبکستان کی حکومت نے ان اطلاعات کی تردید کی ہے جن میں کہا جا رہا تھا کہ افغان شخصیات بشمول جنگجو کمانڈر عبدالرشید دوستم بھی ان افراد میں شامل ہیں جنہیں ازبکستان میں پناہ دی گئی ہے۔

کابل میں پاکستانی سفارتخانہ چار ہزار ویزے جاری کر چکا: فواد چوہدری پاکستان کے وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے اپنے ٹویٹر ہینڈل پر جاری ایک ویڈیو پیغام میں کہا ہے کہ پاکستان کے کابل میں واقع سفارتخانے نے اب تک چار ہزار سے زیادہ ویزے جاری کر دیے ہیں جس میں سے دو ہزار سے زیادہ افراد سفر بھی کر چکے ہیں۔

مزید تفصیل بتاتے ہوئے انہوں نے کہا ہے کہ پاکستان کی قومی فضائی کمپنی پی آئی اے نے لوگوں کو یہ سہولت فراہم کی ہے کہ وہ کابل سے پاکستان آ سکتے ہیں اور 1400 افراد کو قومی فضائی کمپنی پاکستان لے کر آئی ہے۔

فواد چوہدری کا کہنا تھا دو ہزار افراد میں بین الاقوامی ذرائع ابلاغ سے تعلق رکھنے والے صحافی، بین الاقوامی اداروں جیسے کہ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے نمائندے اور مختلف قومیتوں سے تعلق رکھنے والا سفارتی عملہ شامل تھا۔

وفاقی وزیر اطلاعات نے بتایا کہ پاکستان افغانستان سے لوگوں کو نکالنے کے لیے سرگرم ہے۔

طالبان کے شریک بانی ملا عبدالغنی برادر ہفتے کو گروپ کے ساتھی ارکان اور دیگر سیاست دانوں سے نئی افغان حکومت کے قیام پر بات چیت کے لیے کابل پہنچ گئے۔ 

ایک سینیئر طالبان عہدے دار نے بتایا: ’وہ (ملا برادر) ایک جامع حکومت کے قیام کے لیے جہادی رہنماؤں اور سیاست دانوں سے ملاقات کے لیے کابل میں ہیں۔‘

۔ 2010 میں پاکستان میں گرفتار کیے گئے ملا برادر کو 2018 میں امریکی دباؤ پر رہا کیا گیا تھا جو بعد ازاں قطر میں قائم طالبان کے سیاسیی دفتر کے سربراہ کے طور پر کام کرتے رہے۔

 گذشتہ سال فروری میں انہی کے زیر نگرانی طالبان نے امریکہ کے ساتھ غیر ملکی افواج کے انخلا کے معاہدے پر دستخط کیے تھے۔

 ملا برادر منگل کو قطر سے افغانستان پہنچے تھے۔ انہوں نے ملک کے دوسرے بڑے اور طالبان کے بانی شہر قندھار میں اترنے کا فیصلہ کیا تھا۔ ان کی واپسی کے چند گھنٹوں گروپ نے اعلان کیا کہ اس بار ان کی طرز حکمرانی ماضی سے ’مختلف‘ ہوگی۔