افغانستان : امریکی انخلا سے قبل ہی خانہ جنگی کا خاکہ تیار

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 04-07-2021
افغانستان میں خانہ جنگی
افغانستان میں خانہ جنگی

 

 

 کابل :افغانستان سے امریکی افواج کا انخلا بڑی خاموشی کے ساتھ شروع ہوچکا ہے،بیس سال کی جنگ کے بعد امریکا نے واپسی کا فیصلہ کیا ہے۔حالانکہ اس مقصد کے لئے جنگ کا آغاز ہوا تھا وہ پورا نہیں ہوسکا بلکہ ادھورا ہی رہ گیا ہے۔ طالبان اب بھی حاوی ہیں ۔افغانستان میں امریکی افواج کے انخلا کے بعد طالبان کی واپسی کا خطرہ اب خوف بن رہا ہے کیونکہ ہر دن ملک میں اقتدار پر قبضہ کی جنگ شدت اختیار کررہی ہے۔طالبان کے حملے بڑھ رہے ہیں اورہلاکتوں میں اضافہ ہورہا ہے۔ جس نے دنیا کے سامنے یہ سوال پیدا کردیا ہے کہ افغانستان کا کیا ہوگا؟

 بڑی خانہ جنگی جاری

 افغان عوام پناہ کی تلاش میں پریشان،طالبان کاکہناہےکہ بڑے شہروں کا محاصرہ اور بدخشاں کے 7اضلاع پر قبضہ کرلیا جبکہ افغان حکومت کاکہناہےکہ متعددصوبوں میں 300طالبان ہلاک کردیئے ،امریکی صدر بائیڈن نےکہاہےکہ افغانستان سےفوری طور پر ساری فوج نہیں نکال رہے، ہمارے کچھ فوجی افغان حکومت برقرار رکھنے میں مدد دینگے،ادھر اطلاعات ہیں کہ واشنگٹن افغانستان پر نظر رکھنے کیلئے قطر میں اڈہ قائم کریگا۔

 امریکا کی جانب سے اگست تک افغانستان سے اپنے تمام فوجی نکالنے کی تیاریاں جاری ہیں ،ایسے میں افغانستان میں طالبان اور افغان فورسز کےدرمیان لڑائی میں شدت آگئی ہے، افغان وزارت دفاع کاکہناہےکہ24گھنٹوں کےدوران ہونیوالی خوفناک لڑائی میں 300سے زائد طالبان ہلاک کردیئے ہیں،ہلمند میں کیے گئے فضائی حملے میں طالبان کی بڑی تعداد کو نشانہ بنایا گیا۔ ہلمند کی صوبائی کونسل کے رکن عطااللہ افغان بتایاہےکہ حالیہ دنوں میں افغان فضائیہ نے طالبان کے ٹھکانوں کے خلاف اپنے فضائی حملے تیز کردیئے ہیں اورطالبان کو جانی نقصان کا سامنا کرنا پڑا ہےجبکہ طالبان نے حکومت کے ان دعوئوں کو مسترد کردیاہے۔دونوں جانب سے اکثر ایک دوسرے کیخلاف کارروائیوں میں بھاری نقصان پہنچانے کے دعوے کیے جاتے ہیں تاہم آزاد ذرائع سے ان کی تصدیق کرنا مشکل ہوتا ہے۔

 تمام بڑے شہروں کا محاصرہ

یکم مئی،جب امریکا نے افغانستان سے اپنے فوجی انخلاء کا آغاز کیا تھا ،اس کے بعد سے سے افغان حکومت اور طالبان کےدرمیان لڑائی میں شدت آگئی ہے، طالبان نے درجنوں اضلاع پر قبضہ کرلیاہے، طالبان جنگجوئوں نے تقریباً تمام ہی بڑوں شہروں کا محاصرہ کرلیاہےاور ہفتے کو بدخشاں صوبے میں مزید 7اضلاع پر قبضے کا دعویٰ کیاہے۔

لڑائی کابل کے دروازوں تک پہنچ گئی ہے

دوسری جانب افغانستان کی اعلیٰ مصالحتی کونسل کے سربراہ ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ نے کہا ہے کہ کئی صوبوں میں لڑائی میں شدت آنے کے بعد یہ لڑائی ان کے الفاظ میں، کابل شہر کے دروازوں تک پہنچ گئی ہے۔ تاہم انہوں نے بتایا ہے کہ اب بھی کابل حکومت اور دوحہ میں موجود طالبان کے درمیان رابطے برقرار ہیں۔

 افغانستان میں گزشتہ 12 برسوں میں 38 ہزار عام شہری مارے گئے ہیں جب کہ 70 ہزار سے زائد زخمی ہوئے ہیں۔

 سوشل میڈیا بھی طالبان کا ہتھیار

 کابل میں امریکا کے اعلیٰ مندوب روزولسن نے طالبان کو شدید تنقید کانشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ’’طالبان سوشل میڈیا پر افغانوں کو ڈرانے ، دھمکانے اور حملہ کرنے کے لئے پرتشدد پروپیگنڈا اور نفرت انگیز تقاریر کا استعمال کر رہے ہیں،تشدد اور دہشت گردی امن قائم نہیں کرسکتے۔

نئی خانہ جنگی کی گھنٹی

 بگرام سے غیر ملکی افواج کے جانے سے ان خدشات کو مزید تقویت ملی ہے کہ ملک سوویت یونین کے جانے کے بعد 1990 کی دہائی کی طرح نئی خانہ جنگی کی طرف بڑھ سکتا ہے، کابل کے ایک رہائشی کاکہناہےکہ میں تاریخ کو دہرا تا ہوا دیکھ رہا ہوں، امریکی بھی وہی کر رہے ہیں جو روسیوں نے کیا تھا، وہ جنگ کو ختم کیے بغیر جارہے ہیں۔

کون جیتا کون ہارگا؟

افغان وزارت دفاع کا کہنا ہے کہ 24 گھنٹے میں سیکورٹی فورسز سے جھڑپوں میں 224 طالبان مارے گئے۔دوسری جانب سابق برطانوی آرمی چیف نے افغان طالبان کو افغان جنگ کا فاتح قرار دیتے ہوئے افغانستان میں بین الاقوامی فوجی آپریشن کی تحقیقات کا مطالبہ کردیا۔

انہوں نے کہا کہ افغان عوام کو امن اور بہتر زندگی دینے گئے تھے، وہاں اب مسلح طالبان غالب ہیں۔واضح رہے کہ افغان طالبان نے اتحادی افواج کی 700 سے زائد گاڑیوں اور گولا بارود پر قبضہ کرلیا۔ فوجی انخلا کے بعد افغان شہریوں کو مایوسی کا سامنا ہے۔