افغانستان:لڑکیوں کی تعلیم پر طالبان میں پھوٹ

Story by  غوث سیوانی | Posted by  [email protected] | Date 15-04-2022
افغانستان:لڑکیوں کے اسکول بندکرنے سے طالبان کا ایک طبقہ ناراض
افغانستان:لڑکیوں کے اسکول بندکرنے سے طالبان کا ایک طبقہ ناراض

 

 

کابل: افغانستان میں لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی نے جہاں بین الاقوامی سطح پر غم و غصے کو جنم دیا ہے وہیں کچھ طالبان بھی اس فیصلے سے حیران ہیں۔

ایک نیو ایجنسی کے مطابق ماہرین کا کہنا ہے کہ لڑکیوں کی تعلیم پر طالبان کی پابندی سے پتا چلتا ہے کہ تحریک کے انتہائی قدامت پسندوں کا اس گروہ پر سخت کنٹرول برقرار ہے۔ طالبان کے ایک سینیئر رکن نے بتایا کہ ’یہ حکم تباہ کن تھا۔ سپریم لیڈر نے خود مداخلت کی۔

‘ لڑکیوں کے سیکنڈری اسکولوں کو گزشتہ ماہ مارچ میں بند کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔ طالبان کے اقتدار میں آنے کے تقریباً سات ماہ بعد پہلی بار لڑکیوں کے ہائی سکول کھلنے کے چند گھنٹوں بعد ہی طالبان انتظامیہ نے انہیں دوبارہ بند کر دیا تھا۔

جب گزشتہ برس اگست میں طالبان نے ملک کا کنٹرول سنبھالا، اس وقت کورونا وبا کی وجہ سے اسکول بند تھے تاہم دو ماہ بعد صرف لڑکوں اور چھوٹی بچیوں کو اسکول جانے کی اجازت دی گئی۔ اس وقت خدشات ظاہر کیے گئے تھے کہ طالبان لڑکیوں کی تعلیم کو ممنوع قرار دے دیں گے جیسا کہ انہوں نے 1996 سے 2001 تک کے اپنے پچھلے دور حکومت میں کیا تھا۔

حکام نے کبھی بھی اس پابندی کو درست قرار نہیں دیا تاہم ان کی جانب سے یہ کہا جاتا رہا ہے کہ لڑکیوں کی تعلیم ’اسلامی اصولوں‘ کے مطابق ہونی چاہیے۔

ایک سینئر طالبان عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اے ایف پی کو بتایا کہ ’سپریم لیڈر ہیبت اللہ اخوندزادہ اور کچھ دیگر سینیئر شخصیات اس معاملے پر انتہائی سخت موقف رکھتی ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ ’اس تحریک میں دو گروہ معتدل اور انتہائی قدامت پسند سامنے آئے ہیں۔‘ طالبان عہدیدار نے علماء کے ایک گروپ کا حوالہ دیتے ہوئے مزید بتایا کہ ’انتہائی قدامت پسندوں نے یہ راؤنڈ جیت لیا ہے۔‘ (ایجنسی)