افغان میدان میں: طالبان کے خلاف ’’اللہ اکبر‘ مہم

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 04-08-2021
افغانستان میں زور پکڑ رہی ہے مہم
افغانستان میں زور پکڑ رہی ہے مہم

 

 

کابل/ نئی دہلی : منصورالدین فریدی

  افغانستان میں امریکی انخلا کے بعد خانہ جنگی کے حالات ہیں کل رات کابل میں قائم مقام وزیر قانون کے گھر پر حملہ ہوا۔جس میں چھ افراد مارے گئے تھے۔ لیکن اس واقعہ کے بعد کابل میں جو ہوا اس نے سب کو حیران کردیا ہے۔

 کابل کے مختلف علاقوں میں لوگ گھروں سے نکل آئے۔ کچھ گھروں کی چھتوں اور بالکنیوں میں آگئے۔اس کے بعد افغان فورسیز کی حوصلہ افزائی اور حمایت میں فضا ’اللہ اکبر‘ کے نعروں سے گونج اٹھی۔لوگوں میں غم و غصہ تھا،کسی پر طالبان کے حملے کا خوف یا دہشت نہیں تھی۔بلکہ ہر کوئیطالبان کے خلاف مورچہ بند ہورہا تھا۔

کابل اور ملک کے دیگر حصوں میں ایسا ردعمل پہلے کبھی نظر نہیں آیا تھا۔

سوشل میڈیا پر نظر ڈالیں تو ہر جانب ایسی ہی خبروں اور ویڈیوز کی بھر مار ہے جن میں افغان سڑکوں پر ہیں اور طالبان کے خلاف ’اللہ اکبر‘ کے نعرے بلند کررہے ہیں۔

 کابل کے گرین زون میں ہوئے اس حملے نے کسی کو خوف زدہ نہیں کیا بلکہ رات کی تاریکی کے باوجود لوگ سڑکوں پر نکل آگئے۔جلوس کی شکل میں مارچ کیا۔اللہ اکبر کے نعرے لگائے ۔ طالبان کو واضح پیغام ہے کہ لوگ انہیں پسند نہیں کرتے اور افغان حکومت کے ساتھ کھڑے ہیں۔

 اب کابل میں افغانستان میں حکومت کی سرپرستی میں لوگوں اور سکیورٹی فورسز کا حوصلہ بڑھانے کے لیے ’اللہ اکبر‘ کے نعرے بلند کرنے کی یہ منفرد مہم مختلف علاقوں میں چلا رہے ہیں۔

ہر روز کسی نہ کسی علاقے میں بڑی تعداد میں لوگ اپنی چھتوں پر چڑھ کر یا گلی کوچوں میں نکل کر ’اللہ اکبر‘ کے نعرے لگاتے ہیں۔ یہ حالات طالبان کے لیے حیران کن ہیں جنہیں اس بات کی امید نہیں تھی کہ عوامی مزاحمت یہ شکل اختیار کرلے گی۔

جلال آباد اور ہرات میں بھی گونجے نعرے

 ادھر مشرقی شہر جلال آباد میں بھی لوگوں نے رات نو بجے یہ عمل دہرایا۔ اس سے قبل ہرات میں بھی یہی مہم دیکھی گئی۔ اس میں مرد اور عورتیں بھی شریک ہیں۔ افغان شہریوں کا کہنا ہے کہ اس قسم کا اتفاق اور اتحاد انہوں نے اس سے قبل نہیں دیکھا۔ افغانستان کے ان بعض شہروں پر طالبان کے حالیہ حملوں کے بعد اس قسم کی مہم زیادہ معنی خیز مانی جاتی ہے۔

 چھتوں اور سڑکوں کے علاوہ یہ مہم سوشل میڈیا پر بھی تیزی سے مقبول ہو رہی ہے۔ لوگ بڑی تعداد میں اس مہم سے متعلق تصاویر اور ویڈیوز شیئر کر رہے ہیں۔ 

ٹوئٹر پر ایک افغان صارف سید ہاشمی نے ایک ٹانگ سے محروم شخص کی ویڈیو شیئر کی اور لکھا کہ اس کی ایک ٹانگ نہیں ہے لیکن اس کا حوصلہ پہاڑوں کی طرح ہے۔ ’یہ نوجوان کابل میں افغان سکیورٹی فورسز (اے این ڈی ایس ایف) کی حمایت میں اللہ اکبر کی مہم میں شامل ہے۔‘

awazurdu

کابل کی سڑکوں پر اللہ اکبر کے نعروں کی گونج

کابل سے ایک اور ٹوئٹر صارف حبیب خان نے شہر میں ایک افغان خاتون کی ویڈیو شیئر کی جو اللہ اکبر کے نعرے لگانے کے ساتھ ساتھ افغانستان کا قومی پرچم بھی اٹھائے ہوئے ہیں۔ بعض لوگ اس موقع کا فائدہ اٹھا کر پاکستان مخالف باتیں بھی کر رہے ہیں۔

 مبصرین کے مطابق اس مذہبی نعرے کا انتخاب طالبان کی مذہب کے نام پر تحریک کا مقابلہ کرنے کے لیے کیا گیا ہے۔ ’یہ اعلان ہے کہ فتح یا ہار دونوں صورتوں میں اللہ تعالی سب سے بڑے اور سب پر حاوی ہیں۔‘

 ‘غنی نے کہا ’شاباش

افغان صدر اشرف غنی نے بھی اس مہم کی حمایت کی۔ ’ہرات کے لوگوں نے گذشتہ شب ثابت کر دیا کہ اللہ اکبر کی درست نمائندگی کون کرتا ہے۔

 سوشل میڈیا پر افغان خواتین بھی اس مہم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہی ہیں۔ ایک صارف سمیہ سرورزادہ نے ایک ٹویٹ میں لکھا کہ کابل حملے کی زد میں ہے۔ ’ہمارے دشمن ہمیں چپ کروانا چاہتے ہیں لیکن ہم ایسا نہیں ہونے دیں گے۔

  سوشل میڈیا پر جاری اس مہم میں بدھ کی رات نو بجے دوبارہ شہروں میں یہ نعرے لگانے کے لیے اعلانات بھی کیے جا رہے ہیں۔

 طالبان کو لگی مرچیں

دوسری جانب طالبان کے حامی اس مہم پر کڑی تنقید بھی کر کے اسے بند کرانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس سے ظاہر ہورہا ہے کہ طالبان کے لیے یہ مہم پریشانی کا باعث بن رہی ہے۔

طالبان نے ایسا سوچا بھی نہیں ہوگا کہ لوگ خوف اور دہشت کا ماحول بنائے جانے کے باوجود اٹھ کھڑے ہونگے۔

 طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ایک بیان میں کہا کہ اللہ اکبر ان کا نصب العین تھا ناکہ ان لوگوں کا جو اپنے آپ کو سیکولر کہتے ہیں۔

در اصل طالبان کو اس کی قطعی امید نہیں ہوگی کہ عوام اس انداز میں اٹھ کھڑے ہونگے۔

یہی وجہ ہے کہ اب طالبان بتا رہا ہے کہ اللہ اکبر کے نعرے پر صرف اس کا حق ہے۔ ایک بات تو واضح ہے کہ طالبان کے لیے کابل آسان یا تر نوالہ نہیں ہوگا۔

مہم زور پکڑ رہی ہے 

کئی افغانوں نے اپنے ڈی پیز میں بھی اللہ اکبر کی تصاویر لگا دی ہیں۔ کینیڈا کے سفارت کاری کرس ایلگزینڈر نے بھی اس مہم کی حمایت میں ٹویٹ کی ہے۔

 فاطمہ ایوب نے یاد دلانے کی کوشش کی کہ اس طرح کے نعرے آخری مرتبہ افغانستان کے مختلف شہروں میں سوویت یونین کے قبضے کے وقت سنے گئے تھے۔

مظاہروں میں شریک لوگ افغانستان اور اپنی فوج کے حق میں بھی نعرے بازی کرتے ہیں۔ اس مہم کا جنگی میدان میں کوئی اثر ہوتا ہے یا نہیں لیکن فی الحال یہ افغانوں کو متحد کرنے میں کامیاب ثابت ہو رہی ہے۔