لگ بھگ سوفیصدنمبرپانےوالی فاطمہ شیخ کاخواب کیاہے؟آپ بھی جانیں

Story by  غوث سیوانی | Posted by  [email protected] | Date 31-10-2021
لگ بھگ سوفیصدنمبرپانےوالی فاطمہ شیخ کاخواب کیاہے؟آپ بھی جانیں
لگ بھگ سوفیصدنمبرپانےوالی فاطمہ شیخ کاخواب کیاہے؟آپ بھی جانیں

 

 

محمد اکرم،ممبئی

ریاست مہاراشٹر کے دارالحکومت ممبئی کے علاقے ماہم کی سے تعلق رکھنے والی فاطمہ شیخ نے بچپن میں ہی ڈاکٹر بن کر سماجی خدمت کا خواب دیکھا تھا۔

اب وہ اپنے خواب کو سچ کرنے کی پوزیشن میں ہیں۔ انھو ں نے ملک کے میڈیکل کالجوں میں داخلے کے لیے منعقد کیے جانے والے این ای ای ٹی(NEET) امتحان میں 681 نمبر حاصل کر کے آل انڈیا میں 847 ویں پوزیشن حاصل کی ہے۔

انھوں نے کہا کہ یہاں تک پہنچنا ان کے لیے آسان نہیں تھا۔ انہیں سخت جدوجہد کے دور سے گزرنا پڑا۔ این ای ای ٹی کی کامیابی سے وہ مطمئن ہیں کہ انہیں مہاراشٹر کے کسی بھی میڈیکل کالج میں آسانی سے داخلہ مل جائے گا۔

اس کے لیے انھوں نے مہاراشٹر کا کامن ٹیسٹ دیا ہے، جس میں انھوں نے 99.88 فیصد نمبر حاصل کیے ہیں۔ فاطمہ کے والد منور محمد اقبال سرکاری ملازم ہیں۔ والدہ ناہید شیخ منور گھریلو خاتون ہیں۔ فاطمہ شیخ نے آواز دی وائس کے ساتھ گفتگو میں اپنی کامیابی کی کہانی شیئر کی۔ 

 ڈاکٹر بننے کا خواب کب دیکھا؟

چار بہن بھائیوں میں سب سے بڑی فاطمہ نے بتایا کہ میرا بچپن سے یہ خواب تھا کہ ڈاکٹر بن کر عوام کی خدمت کروں، میں جب بھی ہسپتال جاتی تو لوگوں کے مسائل دیکھ کر پورا کرنے کی ہمت پیدا کرتی۔ خواب میں سوچتی تھی کہ ایک دن ضرور ڈاکٹر بن کر ضرورت مندوں کی خدمت کروں گی۔

awazurdu

آپ مستقبل میں کیا کرنا چاہتی ہیں؟

اس حوالے سے فاطمہ نے بتایا کہ میں اپنے ملک میں رہ کر عوام کی خدمت کرنا چاہتی ہوں، ملک کے اندر بہت سے لوگ خاص طور پر خواتین مناسب علاج نہ ہونے کی وجہ سے مر جاتی ہیں، دلت، غریب اور قبائلی خواتین آج بھی خدمت سے محروم ہیں۔ اچھے ڈاکٹر ہیں، مگروہاں تک ان کی پہنچ نہیں ہے۔ میں پیسوں کے پیچھے بھاگنا نہیں چاہتی، خدمت کے لیے اس میدان میں آنا چاہتی ہوں۔

آپ کےآئیڈیل کون ہیں؟

میرے لیے آئیڈیل میرے والدین ہیں، جو ہمیشہ ہمیں پڑھنے کی تلقین کرتے تھے، میں ہر روز اپنے والد کے ہاتھ کا کام دیکھ کر بہت سی چیزیں سیکھتی تھی، قدم قدم پر حوصلہ افزائی کرتے تھے، یہ کامیابی انھیں کی بدولت ہے۔

awazurdu

آپ مسلم معاشرے کو کیا پیغام دیں گی؟

اس سوال کے جواب میں فاطمہ بتاتی ہیں کہ اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ مسلم معاشرے میں جس طرح بچوں کی تعلیم پر توجہ دی جاتی ہے، اس طرح لڑکیوں کی تعلیم پر زور نہیں دیا جاتا، حالانکہ اب کچھ حالات بدل چکے ہیں۔ لڑکیوں کے لیے یہ پیغام ہے کہ اگر وہ اپنی پڑھائی کے لیے آگے بڑھیں گی تو گھر والے بھی ان کا ساتھ دیں گے، آپ صبر سے منزل تک پہنچنے کی کوشش کریں، کامیابی ضرور ملے گی۔

شاہین انسٹی ٹیوٹ آپ کے لیے کتنا اچھا تھا؟

شاہین انسٹی ٹیوٹ ہمارے لیے بہت اچھا رہا، وہاں چار سالوں میں اساتذہ کی قیادت میں بہت کچھ سیکھا، ہمارے ساتھ ہندو لڑکیاں بھی تھیں لیکن کسی قسم کا امتیاز نہیں تھا۔ اس کامیابی کا سارا کریڈٹ ادارے کو جاتا ہے۔