اردو کی دیوانی وشاکھا ۔ زبان سے محبت کی مثال

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | 3 Years ago
 وشاکھا سین کو اعزاز سے نوازگیا
وشاکھا سین کو اعزاز سے نوازگیا

 

 

راکیش چورسیا / للت پور

داغ دہلوی کا شعر "نہیں کھیل اے داغ یاروں سے کہ دو ، کہ آتی ہے اردو زباں آتے آتے ۔" داغ کا یہ شعر یقینا اپنے زمانے کے لحاظ سے موزوں ہوگا لیکن جدید ہندوستان ایک نئے منظر نامے کا شاہد بن رہا ہے۔

اتر پردیش کے بندیل کھنڈ علاقے میں ایک مزدور کی بیٹی نے یوپی بورڈ کے امتحان میں اردو مضمون میں اعلی نمبر حاصل کئے ہیں- انہوں نے ایک قلیل مدت میں اردو میں مہارت حاصل کرکے پورے بندیل کھنڈ کو حیرت میں ڈال دیا ہے۔ 'گڑڈی کی لال' کی اس ہندی مثل کی مصداق بننے والی اس لڑکی کا ایک اور حیرت انگیز پہلو یہ بھی ہے کہ اردو اس کی مادری زبان نہیں ہے - اس حقیقت کے باوجود اس کا اردو کے تئیں لگن اور جذبہ قابل تحسین بھی ہےاردو کو اپنی مادری زباں کہنے والوں کے لئے ایک خوبصورت ترغیب بھی ۔

یہ کارنامہ للت پور کی رہائشی وشاکھا سین نے اپنے نام کیاہے جنہوں نے یوپی بورڈ کے امتحانات کے اردو مضمون میں 100 میں سے 74 نمبر حاصل کئے ہیں۔ وشاکھا سین للت پور گورنمنٹ گرلز انٹر کالج کی 12 ویں جماعت کی طالبہ ہے۔ ان کے والد منوج سین محنت مزدوری کرکے خاندان کے اخراجات پورے کرتے ہیں- ان کی والدہ کا نام رجنی سین ہے ۔ یہ خاندان کھیرا ایڈوکیٹ کے پیچھے طلاب پورہ کے ایک چھوٹے سے مکان میں رہتا ہے۔ وشاکھا بہت محدود وسائل کے ساتھ اپنی تعلیم مکمل کررہی ہیں۔

یوں ہوا اردو کے سفر کا آغاز

اردو نے وشاکھا سین کو کس طرح اپنی طرف راغب کیا؟ یہ بھی ایک کہانی ہے۔ وشاکھا سین نے آواز دی وائس کو بتایا کہ جب وہ اپنے استاد کے پاس پڑھنے جایا کرتی تھیں تو بہت سے بچے تھے جو اساتذہ کے پاس اردو سیکھنے آتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ ان بچوں کو دیکھ کر مجھے حیرت ہوئی کہ ان سب نے اردو کیسے پڑھی۔ پھر میرے کچھ دوستوں نے اعلی نمبروں کے ساتھ یوپی بورڈ پاس کیا اور لکھنؤ میں اعزاز بھی دیا گیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ وہ ان سے بہت متاثر ہوئیں اور اسی دن انہوں نے سوچا کہ ایک دن وہ بھی اردو سیکھیں گی اور اعلی نمبر حاصل کریں گی ۔

وشاکھا سین کا سفر اسی عزم کے ساتھ شروع ہوا - اس خوبصورت سفر نے انہیں اپنے کنبہ ، اساتذہ ، اسکول اور خطے کا نام روشن کرنے کا موقع فراہم کیا۔ وشاکھا سین فلیش بیک میں ان گزرے ہوئے لمحات سے محظوظ ہوتی ہیں اور کہتی ہیں کہ میں نے اردو لکھنا اور پڑھنا شروع کیا۔

جب میں نے لکھنا سیکھا تو مجھے اردو بہت پسند آنے لگی۔ میرے دوستوں اور میرے اہل خانہ کے علاوہ ہمارے اردو استاد سرور خان منصوری نے بھی میری بہت حمایت کی۔ جب میں نے تمام مضامین میں ہائی اسکول پاس کیا تھا تب ہمارے استاد سرور خان نے ہی اردو مضمون کے نجی فارم کو پُر کیا تھا۔

اردو ہے تہذیب کا چشمہ

بھوپال کے مقبول شاعر بشیر بدرفرماتے ہیں کہ "وہ عطر داں سے لہجہ میرے بزرگوں کا، رچی بسی ہوئی اردو زبان کی خوشبو " - کچھ ایسے ہی تاثرات احمد وصی صاحب کے بھی ہیں "وہ کرے بات تو ہر لہز سے خوشبو آے، ایسی بولی وہی بولے جسے اردو آے " وشاکھا بھی اردو میں رچ بس گئیں ہیں، وہ کہتی ہیں کہ "مجھے اردو اس کی مٹھاس کی وجہ سے بہت اچھی لگتی ہے ۔" امراؤ جان ادا اور گودان پسند ہیں

وشاکھا مزید کہتی ہیں کہ مجھے اردو کی غزلیں ، نظمیں، قصیدے، ڈرامے اور افسانے بہت پسند ہیں- مرزا محمد رفیع سودا کا ناول امراؤ جان ادا اور پریم چندر کا ناول گودان بہت زیادہ پسند ہے ۔ گودان میں گوبر پوری دھنیا اور مالتی کا کردار بہت اچھا ہے۔ اردو کی کتابوں میں مجھے اردو نظم کی کتابیں بہت اچھی لگیں ۔ " استاد کی شاعری وہ کہتی ہیں کہ مجھے ابھی تک شاعری کا کوئی شوق نہیں ہے ، لیکن میرے اُستاد ایک شاعر ہیں۔ ان کی ایک غزل جو مجھے بہت پسند ہے آپ کو سناتی ہوں " علم کی شمع جلاؤ تو مزہ آ جائے ، اس سے دل اپنا لگاو تو مزہ آ جائے . جہالت چھوڑ دو اے علم کاروں تم دین و دنیا کی کرو بات تو مزہ آجاے ۔ یہ تو محبوبہ ہے محبت کرو دیوانوں سی، اس سے تم عشق لڑاؤ تو مزہ آجاے- علم سے دل و ذہن ہوتا ہے روشن، سرور زندگی اس سے سنواروں تو مزہ آجاے

اردو میں پی ایچ ڈی کی خواہش

اپنے مستقبل اور آئندہ کے کیریر کے حوالے سے وہ کہتی ہیں کہ وہ اردو میں ایم اے اور پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کرنا چاہتی ہوں- میں بڑی ہوکر اردو ٹیچر بننا چاہتی ہوں ۔

سہیلیاں بھی اردو سیکھنا چاہتی ہیں

انہوں نے کہا کہ میری سہیلیاں مجھے رشک بھری نظروں سے دیکھتی ہیں اور پوچھتی ہیں کہ میں نے اردو کہاں سے سیکھی ۔ وشاکھا بتاتی ہیں کہ ان کی سہیلیاں اردو زباں کی چاشنی سے خاصی متاثر ہیں- ماں کی آنکھوں میں آنسوں آ گئے آواز دی وائس کی طرف سے جب رابطہ کیا گیا تو سب سے پہلے ان کے والد نے فون اٹھایا ۔ اس کے بارے میں بیشاکا کہتی ہیں کہ جب فون آیا تب ہمارے اور ہمارے گھر والے بہت خوش ہوئے ۔ جب ہماری آپ سے بات ہو رہی تھی تو اس دوران میری والدہ کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ وشاکھا کہتی ہیں کہ مجھے اتنا اچھا لگا کہ میں بیان نہیں کر سکتی ۔ انہوں نے آواز دی وائس کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ آپ کی فون کال سے ہمارے اعتماد میں بہت اضافہ ہوا ہے ۔

وشاکھا کو ملا اعزاز

وشاکھا سین کو ایس کے منصوری اردو ادب اور خوش نما انجمن فروغ اردو ادب نے سابقہ محفل میلاد میں اس کامیابی کے لئے شیلڈ اور سند دے کر اعزاز سے نوازا- تقریب کی صدارت محمد قریب پپو رین نے کی- اس اعزاز پر وشاکھا اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ جب یہ اعزاز دیا گیا تو میں خوشی کی وجہ سے آبدیدہ ہو گئی ۔ یہ میرے والدین کی محنت اور تربیت کا صلہ ہے ۔ "