متحدہ عرب امارات (یو اے ای) ابھی بھی جشن میں ڈوبا ہوا ہے،کیونکہ ملک پہلی کوشش میں مریخ پر اپنا خلائی مشن ہوپ بھیجنے میں کامیاب ہوا ہے،جو کہ عرب دنیا کےلئے ایک بڑی خبربنی۔ایک اہم سنگ میل ثابت ہوا۔ایک نئی سوچ کے ساتھ ایک نئی راہ پر ترقی کا سفر شروع ہوا۔ جس نے متحدہ عرب امارت کو دنیا میں سائنس اور ٹکنالوجی کے میدان میں اچانک بلندی پر پہنچا دیا ہے۔مگر اس کامیابی کا ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ اس مشن کی دوسری سب سے اہم شخصیت یا کردار ایک خاتون ہیں۔یعنی کہ متحدہ عرب امارات کی اس کامیابی کے پیچھے خواتین کا اہم کردار رہا۔ جو اس بات کا ثبوت ہےکہ عرب دنیا میں خواتین کی ہر میدان میں حصہ داری بڑھتی جارہی ہے۔ وہ اب معاشرے کی ترقی میں اہم کردار نبھا رہی ہیں۔اس بڑے اور اہم مشن کی دوسری اہم شخصیت نائب پروجیکٹ مینیجر سارہ بنت یوسف الامیری ہیں جو ایک کمپیوٹر انجینیئر ہیں بلکہ ملک کی پہلی وزیر مملکت برائے ایڈوانس سائنسز بھی ہیں۔33 سالہ سارہ متحدہ عرب امارات کی خلائی ایجنسی ’محمد بن راشد سپیس سینٹر‘ کی چیئرپرسن بھی ہیں۔
سب سے کم عمر وزیر بھی
حیران کن بات یہ ہے کہ سارہ نہ صرف ٹکلنالوجی کے میدان میں بڑے مشن سے وابستہ ہیں بلکہ سرکاری سطح پر بھی اپنے فرائض انجام دے رہی ہیں۔ایران میں پیدا ہونے والی سارہ دنیا بھر میں کم عمر ترین وزرا میں سے ایک ہیں اور خلائی ایجنسی کی قیادت کرنے والی سب سے کم عمر خاتون بھی۔شارجہ میں امریکن یونیورسٹی سے 2008 میں کمپیوٹر انجینیئرنگ میں گریجویشن سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد سارہ نے امارات انسٹی ٹیوشن فار ایڈوانسڈ سائنس اینڈ ٹیکنالوجی (EIAST) میں پروگرام انجینیئر کی حیثیت سے دو سال خدمات انجام دیں۔
پہلا مشن نہیں تھا
ایسا نہیں ہے کہ سارہ کا یہ پہلا مشن تھا۔ وہ امارات انسٹی ٹیوشن فار ایڈوانسڈ سائنس اینڈ ٹیکنالوجی میں کام کرتے ہوئے ملک کے پہلے دو مصنوعی سیارے دبئی سیٹ 1 اور دبئی سیٹ 2 پر کام کرچکی ہیں۔وہ اس ٹیم کا بھی حصہ تھیں، جس نے خلیفہ سیٹ یا دبئی سیٹ 3 تیار کیا اور ایڈوانسڈ ایروناٹیکل سسٹم ڈویژن کی ڈائریکٹر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔
متحدہ عرب امارات کی شان بنی سارہ
انہوں نے اسی یونیورسٹی سے 2014 میں کمپیوٹر انجینیئرنگ میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی جبکہ بیک وقت وہ محمد بن راشد سپیس سنٹر میں ہیڈ آف سپیس سائنس کی حیثیت سے بھی کام جاری رکھے ہوئے تھیں۔اسپیس ایجنسی میں انہوں نے ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ یونٹ قائم کیا اوراس کے ڈائریکٹر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔تنظیمکے ایک رکن کے طور پر انہوں نے ’علم پر مبنی معیشت‘ کی ترقی کے ملکی منصوبے پر بھی کام کیا۔ اس منصوبے میں یو اے ای کا 2117 تک مریخ پر انسانی بیس کی تعمیر کرنے کا پروجیکٹ بھی شامل ہے۔یہ ایجنسی مریخ کے حالات کا مشاہدہ کرنے کے لیے دبئی کے ریگستانوں میں ایک ’سائنس سٹی‘ تعمیر کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔2014 میں سارہ ملک کے خلائی مرکز میں ایڈوانسڈ ایریل سسٹمز پروگرام کی مینیجر بن گئی تھیں۔ وہ خلائی ایجنسی کے لیے انجینیئرنگ ٹیم کو اکٹھا کرنے کی ذمہ دار بھی تھی۔اس کے بعد انہیں 2016 میں امارات سائنس کونسل کی سربراہ مقرر کیا گیا تھا۔
خوشی سے سرشارہیں سارہ
ہوپ مشن کی کامیابی نے جہاں متحدہ عرب امارات میں خوشیوں کا سیلاب لادیا وہیں سارہ کےلئے ان لمحات کو بیان کرنا مشکل ہورہا تھا۔سارہ کا کہنا تھا کہ اگر آپ واقعی تیزی سے پیش رفت کی حوصلہ افزائی کرنا چاہتے ہیں اور آپ پوری نسل کی مہارت اور صلاحیتوں کو تیزی سے فروغ دینا چاہتے ہیں تو آپ کو بڑے خطرات اٹھانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ آپ اسے زیادہ ضمانت کے ساتھ حاصل نہیں کر سکتے۔
اس مشن کا اعلان 2014 میں کیا گیا تھا اور نو فروری کو ہوپ مشن سرخ سیارے کے مدار میں داخل ہونے میں کامیاب ہوا۔سارہ نے کہا ہے کہ یہ (مشن) عام لوگوں کے ساتھ سائنس کے بارے میں بات چیت کو آگے بڑھانے اور اس کے بارے میں معلومات پھیلانے میں بہترین رہا، اس شعبے کو نہ صرف ملک کے اندر بلکہ خطے میں بھی بڑی حد تک نظرانداز کیا گیا تھا۔ اس (سائنس) بارے میں لوگ بات نہیں کرتے تھے۔
سارہ ایک روشن چہرہ۔ایک مثالی خاتون ،جو عرب دنیا میں خواتین کی عملی حصہ داری کی علامت بھی ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ ہم سائنس اور ٹیکنالوجی کے استعمال سے اپنے ملک کی معیشت کو متنوع بنائیں گے۔ اس مشن کے ذریعے مریخ کی بھیجی گئی تصویر مثالی ہوگی لیکن میں یہ تصور نہیں کرسکتی کہ مریخ کے پورے کرّے کی پہلی تصویر حاصل کرنے کے بعد کیسا محسوس ہو گا۔