میوات کی راحیلہ بنی جدوجہد کی مثال

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 09-02-2021
راحیلہ بانو
راحیلہ بانو

 

راکیش چورسیا / نئی دہلی

''یہ 2006 کی بات ہے، جب میں فلیکسٹرانکس سافٹ ویئر کمپنی کے ساتھ کام کرتا تھا۔ ہمارا خاندان ہر سال کی طرح میوات کے نگینہ بلاک کے گاؤں ساٹھواڑی عرس میں گیا ہوا تھا۔ اس دوران میری ملاقات غریب خاندان کی ایک لڑکی شہناز سے ہوئی تھی، جو اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا چاہتی تھی، لیکن اس کے اباجی ایک ّ دھارمک گرو ٗ (حافظ صاحب) تھے، جو آٹھویں جماعت کے بعد اپنی بیٹی کو پڑھانا نہیں چاہتے تھے۔ لڑکی نے مجھ سے اپنی تعلیم جاری رکھنے اور اعلی تعلیم حاصل کرنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ اس نے کہا کہ میں پڑھنا چاہتی ہوں، لیکن ابا جی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے سے منع کررہے ہیں۔ میں نے لڑکی کے اہل خانہ کو سمجھایا۔ اس کے اہل خانہ نے کہا کہ اگر لڑکی زیادہ پڑھ لکھ گئی تو اس کے لیے اعلیٰ تعلیم یافتہ لڑکا ڈھونڈنا پڑے گا، جس سے اس کا رشتہ کرنا ہم لوگوں کے بس کی بات نہیں ہے۔ کیونکہ جتنا زیادہ پڑھا لکھا لڑکا آپ ڈھونڈیں گے اس کی قیمت اتنی ہی زیادہ ادا کرنی پڑے گی۔ میں نے انہیں انتہائی سہل انداز میں اسلامی طریقے سے سمجھایا۔ میں نے لڑکی کے ابا سے ایک بات پوچھی، یہ بتاؤکہ اسلام میں کہا گیا ہے کہ جوڑیاں تو آسمان میں بنتی ہیں، آپ اس پر کتنا یقین رکھتے ہیں۔ اس پر لڑکی کے ابا جی بولے، جی یہ بات صد فیصد درست ہے۔ پھر کافی جدوجہد کے بعد لڑکی کے ابا اعلی تعلیم دلانے کے لیے رضامند ہوگیے۔ آج وہ لڑکی گریجویٹ اور جے بی ٹی کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد راجستھان میں پرائمری ٹیچرہیں۔ یہ کہانی ہے راحیلہ بانو کی  جومیوات میں  بچیوں اور ان کے گارجین کو اعلیٰ تعلیم دلانے کی ترغیب دیتی ہے۔

 لڑکیوں کی کم عمری میں  شادی

میوات کے مسلم معاشرے میں لڑکیوں کے لئے پانچویں یا آٹھویں جماعت تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد اسکول چھڑا دینا ایک عام رواج ہے۔ راحیلہ بانو اعلی تعلیم کے لئے مسلم معاشرے کی ایسی ڈراپ آوٹ بچیوں کو اعلیٰ تعلیم دلانے کے لیے ایک آئیکن بن گئی ہیں۔  راحیلہ کے ذہن میں مسلم لڑکیوں کی اعلیٰ تعلیم کے لیے کس طرح درد اٹھا  اس کا جواب دیتے ہوئے وہ کہتی ہیں کہ وہ خود اس افسوس ناک اور برے رواج کا شکارہوتے ہوتے بچی ہیں۔

ساؤتھ ہریانہ الیکٹرک سپلائی محکمہ سے ریٹائرڈ اصغر حسین اور ناخواندہ ماں زوبینہ خاتون کی لخت جگر راحیلہ نے بتایا کہ ّمیری ابتدائی تعلیم اور پرورش میوات کے ٹھیٹھ دیہاتی آبائی گاؤں پچناکا، تحصیل ہتھین کے ایک عام کسان گھرانے میں ہوئی، جہاں کے ٹھیٹھ عام زمین دار گائے اور بھینس اور بچھڑوں کے ساتھ کھیلنا، لہراتی فصلوں کے درمیان رہنا، انہیں سب حسین ماحول میں میں نے اپنا بچپن گزارا۔ میں پانچویں جماعت تک گاؤں میں ہی رہی۔

وہ بتاتی ہیں کہ اس کے بعد اپنے ابا کی ملازمت کی وجہ سے وہ اپنے اہل خانہ کے ساتھ فرید آباد شفٹ ہوگئیں۔ ان کا کہنا ہے کہ میوات کی لڑکی تھوڑی بڑی نہیں ہوئی کہ اس کے والدین سماج اور رشتہ داروں کو اس کی شادی کی فکر ستانے لگتی ہے۔ میوات میں اس وقت عام طور پر لوگ 14-15 سال کی عمر میں لڑکیوں کی شادی کردیا کرتے تھے۔ جیسے تیسے وہ آٹھویں نویں جماعت میں پہنچیں کہ گھر میں شادی کا ذکر زور پکڑنے لگا۔

قد کاٹھی دیکھ کربولے اس کی شادی کردو

اس نے بتایا کہ جب وہ اسکول میں اپنے ٹیچر سے بات کرتیں تو وہ ان سے پوچھا کرتی تھی کہ بیٹا تم بڑی ہوکر کیا بنوگی۔ سنگی سہیلیوں سے کیریئر کے سلسلے میں باتیں ہوا کرتی تھیں، لیکن جب وہ اسکول سے اپنے گھر واپس لوٹتی توگھروں میں وہی شادی بیاہ کی بحث چھڑی ہوتی،۔ انہوں نے کہاکہ اس لیے سارا خاندان، گھر اورکنبہ اڑوس پڑوس گاؤں اور رشتے دار کے ساتھ ملنے جلنے والے یہ کہنے لگے اصغر صاحب  (ابا جی) آپ کی لڑکی اب سیانی ہوگئی ہے۔ اب اس کے لیے مناسب رشتہ ڈھونڈو اور اس کے ہاتھ پیلے کردو۔

وہ اپنا ماضی یاد کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ جلد شادی کرنے کے خوف نے انہیں مزید تعلیم حاصل کرنے پر مجبور کردیا، کیوں کہ اسے اپنے والد پر اتنا اعتماد تھا کہ جب تک وہ اپنی تعلیم جاری رکھیں گی تب تک وہ اس کی شادی نہیں کریں گے۔ لہذا کچھ پڑھنے، کچھ بننے کی للک نے انہیں اپنے کیریئر پر فوکس رہنے کی ہمت دلائی، تاکہ وہ تعلیم حاصل کرسکیں اور اس کے گھر کے لوگ بھی اس سے راضی ہوجائیں، کیونکہ شادی کے لئے سماج کا دباؤماں باپ پر بہت زیادہ ہوا کرتا ہے۔

منزل دور تھی

اس دوران ان کے خاندانی دوست ذاکر حسین صاحب کا ان کے گھر پر آنا جانا رہتا تھا جو پولی ٹیکنک کالج میں لیکچرر تھے۔ انہوں نے ہی اسے ڈپلوما کرنے کی ترغیب دلائی تھی، کیوں کہ گورنمنٹ پولی ٹیکنک کالج فار ویمین، فرید آباد ان کے گھر سے کچھ ہی فاصلے پر تھا، لہذا اس کالج میں داخلہ کے لیے ان کے والدین کا رضامند ہونا آسان تھا۔

پھر انہوں نے ٹھان ہی لیا کہ ہر حال میں گورنمنٹ پولی ٹیکنک کالج میں داخلہ لینا ہے۔ اس نے اس کالج میں ایڈ میشن لینے کے لئے ابا جی کوبڑی آسانی سے راضی کرلیا۔ اس نے دن رات ایڈمیشن ٹیسٹ تیاری کردی اور مقصد کو حاصل کرنے کے لیے جی جان لگا دیا۔  وہ نہ صرف اپنے مقصد میں کامیاب رہیں بلکہ اس وقت کی انجینئرنگ کی سب سے ٹاپ برانچ انفارمیشن ٹکنالوجی میں داخلہ بھی لیا۔ یہ بھی کتنا حسین اتفاق ہے کہ جن ذاکر حسین صاحب نے انہیں ڈپلوما کرنے کی ترغیب دلائی تھی اور آج وہ اور ذاکرصاحب دونوں ایک ہی شعبے میں لیکچرار ہیں۔

راحیلہ کہتی ہیں کہ ابھی میری منزل بہت دور تھی۔ مجھے ابھی آگے بھی پڑھنا تھا۔ بار بار میرے ذہن میں سوال دوڑتا رہتا کہ اب مجھے ڈپلوما کے بعد کیا کرنا ہے جس سے میرے کنبہ قبیلہ کے لوگ بھی راضی ہوجائیں اور میری تعلیم کا سفرحسب سابق آگے بھی جاری رہ سکے۔ میری زندگی سے وابستہ یہ واقعہ بھی سبق آموز ہے کہ جب میں ڈپلوما کر رہی تھی، اسی زمانے میں میں تعلیم کے ساتھ ساتھ کھیلوں میں بھی حصہ لینا شروع کر دیا تھا، کیوں کہ میں اسکول لیول سے ہی کھیلوں میں ٹاپ رہی تھی اور اس کے بعد ہمیشہ اپنے کالج کے قیام کے وقت انٹر کالج اور اسٹیٹ لیول تک کھیلوں میں اول پوزیشن حاصل کرتی آئی تھی۔

شادی کر لو، ورنہ معاشرتی بائیکاٹ

انہوں نے بتایا کہ کھیلوں کے دوران لی گئی تصاویر اور  میرا نام اخبارات میں سرخیوں میں آنا شروع ہو گیا تھا۔ میں شاٹ پہن کر کھیلا کرتی تھی۔ اخبارات میں میری تصویریں دیکھنے کے بعد ہمارے روایتی سماج کے لوگ مجھے شاباشی دینے، میری حوصلہ افزائی کرنے یا مبارکباد دینے کی بجائے مشتعل ہوجایا کرتے تھے غصے سے لال پیلے ہوکر میرے اباجی سے کہتے ّّاصغر صاحب یو چوکھی کی بات نا ہے، تیری چھوری جوان ہے، شارٹس پہننا ہمارے سماج اور برادری میں کوئی اچھی بات نا ہے۔ یاکہ شادی بیاہ کردو ورنہ ہم لوگ آپ کا سماجی  بائیکاٹ کردیں گے۔ اس لیے مسلسل میرے ماں باپ پر معاشرے اور گاؤں والوں کا دباؤبڑھنے لگاٗٗ۔

شادی کے خوف سے انجینئرنگ کالج میں داخلہ لیا

اسی دوران وائی ایم سی اے انجینئرنگ کالج کے اس وقت کے ڈائریکٹر ڈاکٹر اشوک اروڑا کا ویمن پولی ٹیکنک کالج میں کھیلوں کے پروگرام میں مہمان خصوصی کے طور پر آنا ہوا۔ جب یہ بات معلوم ہوئی کہ میوات کی ایک لڑکی اعلیٰ تعلیم کے ساتھ ساتھ کھیلوں میں بھی ٹاپ پوزیشن پر ہے تو انہوں نے راحیلہ کو بلا کر پوچھا، بیٹا آگے آپ کیا بننا پسند کروگی تو راحیلہ نے کانپتے ہونٹوں سے اپنا ارادہ ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ اسے صرف اور صرف تعلیم حاصل کرنا ہے، راحیلہ کے عزم سے خوش ہوکر ڈاکٹر اشوک اروڑا نے اسے وائی ایم سی اے کالج کے بارے میں بتایا۔ جب ہی راحیلہ نے ٹھان لیا کہ ہر قیمت اور ہر حال میں اسے وائی ایم سی اے انجینئرنگ کالج میں داخلہ لینا ہے۔ ارادے اور حوصلے کی پختگی نے راحیلہ کے لیے یہاں بھی ایڈ میشن کی راہ آسان کردی۔

ڈپٹی کمشنر جی انوپما نے را حیلہ بانو کو اعزاز سے نوازا

راحیلہ خوشی سے جھومتے ہوئے بتاتی ہے کہ''اب میرے سامنے فقط  دو آپشن تھے، اگراس کالج میں میرا داخلہ نہیں ہوا تو میری شادی کردی جائے گی، جو میں کسی بھی حالت میں اس وقت تک شادی نہیں کرنا چاہتی تھی جب تک میں اپنے پیروں پر کھڑی نہ ہو جاؤں۔ اس کے لیے میرے سامنے دو سب سے اہم چیلنجز بھی تھے۔ پہلا اس وقت ہریانہ کا دوسرے سب سے ٹاپ انجینئرنگ کالج وائی ایم سی اے میں داخلہ لینا، کیونکہ میرے ابا اور امی صرف اور صرف وائی ایم سی اے انجینئرنگ کالج میں ایڈمیشن لینے کے لئے ہی راضی ہوسکتے تھے، کیونکہ یہ کالج بھی میرے گھر سے قریب تھوڑی ہی مسافت پر واقع تھا۔ دوسرا چیلنج اس وقت کے سب سے پیچیدہ اور مشکل شعبہ کمپیوٹر سائنس میں داخلہ لینا تھا، کیونکہ میرا ڈپلوما آئی ٹی شعبے میں ہی ہوا تھا۔ ''

سماج کےدباؤ کے آگے کھیل کو چھوڑنا پڑا

راحیلہ  بجھے ہوئے دل سے کہتی ہیں کہ ''اب میں گھر میں اپنی ماں کے ساتھ کام کاج میں ہاتھ بٹانا اور بہن بھائیوں میں سب سے بڑی ہونے کے ناطے ان کے اسکول کے ہوم ورک پورا کرانے کی ذمہ داری، کھیلوں میں ٹورنامنٹ کی تیاری کے ساتھ ساتھ اپنے ڈپلوما کے آخری امتحان کی تیاری اور ہر حال میں وائی ایم سی اے انجنیئرنگ کالج آئی ٹی شعبے میں داخلہ لینے کی دھن، ان تمام چیزوں کو مجھے ساتھ لے کر ہی چلنا تھا، جسے میں بخوبی انجام دے رہی تھی۔ بالآخر دن رات ایک کرکے اپنی لگن اور محنت کی بنیاد پر اپنے مطلوبہ مقام کو حاصل کرلیا ہے۔ اس طرح جلد شادی ہونے کے خوف اور کچھ بننے کی خواہش کے اور اپنے ارادے میں اٹل رہنے کی وجہ سے انہوں نے وائی ایم سی اے کالج میں داخلہ حاصل لیا۔ مجھے وائی ایم سی اے انجنیئرنگ کالج میں داخلہ ملنے کی خوشی توتھی، مگر میرے گھر والوں پرپر سماج کا دباؤہونے کی وجہ سے مجھے کھیلوں کو الوداع کہنا پڑا۔

راحیلہ بانو ایک مقابلے میں حصہ لیتی ہوئیں

انہوں نے بتایا کہ وائی ایم سی اے سے پڑھائی پوری کرنے کے بعد ایم این سی کمپنی فلیکسٹرانکس سافٹ ویئر سسٹم میں انٹرنشپ کے بعد ہی ملازمت مل گئی۔ کچھ مہینے تک یہاں کام کرنے کے بعد انہیں ایسا لگا کہ یہ ان کی اصل منزل نہیں ہے۔ چناںچہ انہوں نے وہاں سے استعفیٰ دے دیا اور دھوج کے الفلاح انجینئرنگ کالج میں لیکچرر بن گئیں۔ یہاں بھی انہیں اطمینان نہیں مل رہا تھا، لہذا انہوں نے اوٹوار کے گورنمنٹ پولی ٹیکنک کالج سوسائٹی میں بطور لیکچرر شمولیت اختیار کی۔

راحیلہ نے اپنے تعلیمی سفر میں ڈپلوما ان انفارمیشن ٹکنالوجی اور ایم ٹیک ان کمپیوٹر سائنس  کیا۔ وہ اس وقت کمپیوٹر سائنس میں پی ایچ ڈی کر رہی ہیں اور انہیں ہندی، سنسکرت، اردو، عربی اور انگریزی زبانوں پر مکمل دسترس ہے۔

لڑکیوں پر گھریلو اور کھیتی باڑی کے کاموں کا بوجھ

میوات میں لڑکیوں کے کیا حالات ہیں اس سوال پر وہ کہتی ہیں کہ وہ بچپن سے ہی اپنی اور دوسری لڑکیوں کے حالات کو قریب سے دیکھتی رہی ہیں اور ان کے درد کو اپنے دل میں ہمیشہ محسوس کرتی رہی ہیں۔ کم عمری میں ہی لڑکیوں کو اپنے چھوٹے بھائی بہنوں کو سنبھالنے کی ذمے داری انہیں سونپ دی جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''میں نے چھوٹی لڑکیوں کو اپنے ساتھ مویشیوں دیکھ بھال کے ساتھ ان کے لیے سانی (بھینسوں کے لئے چارہ ڈالنے)، اپنے جانوروں کو نہلانے سے لے کر دودھ نکالنے اور اس کے بعد گوبر سے اوپلے پاتھنے، ان کے لیے جنگلوں (کھیتوں) سے چارہ لانے اور کھانا پکانے کے لیے جلاون کے طور پرجنگلوں سے لکڑیاں لانے کا کام کام کرنے جیسی مشقتوں کو قریب سے دیکھا ہے۔ چھوٹی چھوٹی لڑکیاں دوپہر کے وقت تیز اور سخت ترین درجہ حرارت 44 ڈگری سے 48 ڈگری کے کھالیں جلادینے والے موسم میں لاونی (گندم کاٹتی) کرتی ہیں۔ ننھی سی عمر میں ہی میں نے انہیں چولہے پر روٹی بناتے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔

ان لڑکیوں کی زندگی

کتنی ڈراپ آوٹ لڑکیوں کو اسکول تک پہنچایا اس سوال کا حوصلہ افزا جواب دیتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ ''اس کی ٹھیک ٹھیک تعداد تومجھے یاد نہیں ہے، لیکن میرا اندازہ ہے کہ کم و بیش ایک ہزار سے زیادہ ڈراپ آوٹ لڑکیوں کو میں نے اسکول تک پہنچایا ہے۔ باقی ان بچیوں کی تعداد بھی پسماندہ ترین میوات میں ہزاروں میں ہے۔ جنہوں نے مجھے رول ماڈل سمجھا یا میری وجہ سے جن کے والدین نے اپنی لڑکیوں کو پڑھانے اور ان کا مستقبل سنوارنے کی طرف توجہ دی۔ بہت سی لڑکیوں کو میں میرے کالج میں ڈپلوماکرنے کے لئے ترغیب دلائی اور دوڑ دھوپ کرکے ان کا داخلہ بھی کرایا، ایسی بچیوں کی تعداد بھی سیکڑوں میں ہے۔ بچیوں کو اعلیٰ تعلیم دلانے کی یہ مہم میرے ذریعے مئی 2006 میں ہی شروع ہو گئی تھی۔ پھر 2008 میں مائننگ کے کاروباری جناب امین الدین عرف معین خان سے شادی ہوئی اور دو بچے بھی ہوئے، ساتھ ہی بچیوں کی تعلیم کے لیے کوشش کی میری مہم بھی مسلسل جاری رہی۔ لیکن صحیح معنی میں ڈراپ آوٹ لڑکیوں کو اسکول پہنچانے کی شرعات میرے اوٹوار پولی ٹیکنک کالج میں لکچرر کے طور پر میری جوائننگ کے بعد ہوئی۔ میرے کالج کے قریب کوٹ گاؤں کے گورنمنٹ اسکول کے کچھ اساتذہ تھے جو کالج میں کسی کام سے آئے ہو ئے تھے۔ میوات میں لڑکیوں کی تعلیم کے بارے میں ان سے میری بات چیت ہوئی۔