نیلوفر جان : مشروم کی کھیتی سے خود کفیل بننے کی کہانی

Story by  ایم فریدی | Posted by  Shah Imran Hasan | 2 Years ago
 نیلوفر جان : خود کفیل کشمیری خاتون
نیلوفر جان : خود کفیل کشمیری خاتون

 


رضوان شفیع وانی،سری نگر

ایک وقت تھا جب کشمیر میں خواتین اپنے شوہر اور بیٹوں کی کمائی کی محتاج ہوا کرتی تھیں، لیکن آج یہی خواتین اپنے فن کی وجہ سے خود کفیل ہونے کے ساتھ ساتھ لوگوں کے لیے روزگار پیدا کررہی ہیں۔ان ہی خواتین میں ضلع پلوامہ کی نیلوفر جان بھی شامل ہے جو مشروم کا کاروبار شروع کرکے خود کفیل بن گئی ہے۔ نیلوفر جان کا تعلق جنوبی ضلع پلوامہ کے گنگو علاقے سے ہے اور انہوں نے 2 سال قبل اپنا ایک چھوٹا سا پروجیکٹ شروع کیا تھا جس میں وہ کامیاب ہو گئی۔

محکمہ ایگریکلچر کی مدد سے انہوں نے مشروم کا کاروبار شروع کیا اور وہ اس کاروبار کی وجہ سے اپنے علاقے میں مقبول ہو چُکی ہے۔ ایک وقت تھا جب نیلوفر کو کالج کی فیس ادا کرنے کے لیے پیسے نہیں تھے لیکن آج وہ مشروم کی کھیتی کے ذریعے اپنے پیروں پر کھڑا ہو گئی ہے اور خود کی کمائی سے ضروریات زندگی، پڑھائی کا خرچہ اور اپنا گھر بھی چلاتی ہے۔ نیلوفر نے آواز دی وائس سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہم ایک شدید مالی بحران سے گزر رہے تھے۔

مالی وسائل نہ ہونے کے باعث اعلیٰ تعلیم کے حصول میں رکاوٹ پیدا ہوئی۔ 'میں نے کالج سے گریجویشن مکمل کرنے کے بعد ماسٹرس ڈگری حاصل کرنے کے لیے یونیورسٹی میں داخلہ لینا چاہا۔ یونیوسٹی میں داخلہ لینے کے لیے 16 ہزار روپیے بطور فیس بھرنے تھے لیکن گھر میں پیسے نہیں تھے جس کی وجہ سے میں یونیورسٹی میں داخلہ نہیں لے پائی اور میرے اکیڈمکس کا ایک سال ضائع ہو گیا۔

awazurdu

اس کے بعد میں نے فیصلہ کیا گھر کو مالی مشکلات سے باہر نکالنے کے لیے کچھ کرنا ہے۔' نیلوفر گھر میں سب سے چھوٹی ہیں۔ ان کے والد شہد کا چھوٹا موٹا کاروبار کرتے ہیں۔ نیلوفر کا کہنا ہے کہ ہم گھر میں چار بھائی بہن ہیں۔

میں سب سے چھوٹی ہوں۔ گھر میں کمانے والا صرف میرے پاپا ہی تھے لیکن ان کی کمائی سے گھر کا گزارا مشکل سے ہی ہوپاتا تھا۔ یونیورسٹی میں داخلے کے لیے پاپا میری فیس ادا نہیں کر پائے۔ میں نے فیصلہ کیا کہ گھر کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے میں پاپا کی مدد کروں گی۔' نیلوفر نے محکمہ زراعت سے ٹریننگ لی، جس کے بعد انہوں نے گھر میں ہی مشروم کی کھیتی کرنا شروع کیا۔وہ کہتی ہیں کہ 'میں سوچتی رہتی تھی کہ کس طرح سے میں گھر کی ضرویات کو پورا کرنے میں اپنے پاپا کی مدد کر سکوں۔ محکمہ زراعت اُن ہی دنوں وہاں نوجوانوں کو مشروم کی کھیتی سے متعلق ٹریننگ دے رہے تھے۔

میں نے بھی تربیت حاصل کرنے کے لیے فارم جمع کیا۔ دس دنوں تک مجھے ٹریننگ دی گئی۔ شروع میں یہ مشکل لگنے لگا تھا لیکن میں مسلسل مشق کرتی رہی اور پھر مہارت حاصل کی۔ محکمہ کی جانب سے سبسڈی پر مشروم کے پودے فراہم کیے گئے۔ پھر میں نے گھر میں مشروم اگائے اور اس طرح سے یہ سفر شروع ہوا۔ آج میں گھر کے کمروں میں پلاسٹک کے تھیلے رکھ کر مشروم تیار کر رہی ہوں‏۔

awazurdu

الحمدللہ آج اسی کام کی وجہ سے گھر کا سارا خرچہ چل رہا ہے۔' نیلوفر کاروبار کے ساتھ ساتھ اندرا گاندھی نیشنل اوپن یونیورسٹی سے سوشل ورک میں ماسٹر کی ڈگری حاصل کر رہی ہے اور اپنے اس کاروبار سے سالانہ دو لاکھ کے قریب روپیے کماتی ہیں۔ نیلوفر کا کہنا ہے کہ پہلے 16,000 روپے سمسٹر کی فیس ادا کرنا ایک دور کا خواب لگتا تھا، لیکن آج میں سالانہ 2 لاکھ کے قریب کماتی ہوں۔

آج میں خود کفیل ہوں۔ بہت کامیاب ہوں اور کسی پر محتاج نہیں رہی۔ اس کاروبار کی وجہ سے گھر کی ساری مالی پریشانیاں دور ہو گئی ہیں۔ ہم خوشحال زندگی گزار رہے ہیں۔ نیلوفر کے علاقے میں ایسی کئی خواتین ہیں جنہوں نے یہ کاروبار شروع کیا ہے۔ وہ کہتی ہے کہ مشروم کی کاشتکاری کی طرف خواتین مائل ہو رہے ہیں۔ اس پر زیادہ خرچ نہیں آتا اور اسے گھروں میں بھی آسانی سے کاشت کیا جا سکتا ہے۔ 'مشروم کی کاشت اب بہت آسان ہوگئی ہے۔

اس کے لئے ایک کمرے کی ضرورت ہوتی ہے، جس میں کئی شلف ہونے چاہئے۔ مکحمہ زراعت تیار شدہ کمپوسٹ فراہم کرتا ہے جو کہ پانچ کلو کے پلاسٹک تھیلوں میں ہوتا ہے، تھیلوں کو ان شیلفوں پر رکھا جاتا ہے۔ مشروم کے لیے 20 سے 30 ڈگری سینٹی گریڈ درجہ حرارت کی ضرورت ہوتی ہے ۔ تقریباً 15 روز بعد مشروم کی پہلی فصل آنی شروع ہوتی ہے اور تین سے چار ماہ میں فصل تیار ہو جاتی ہے۔' نیلوفر نے محکمہ زراعت کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ محکمہ خواتین کو سماجی اور معاشی طورپر مستحکم کرنےکی کوشش کر رہا ہے۔

'ضلع میں کئی خواتین ہیں جنہوں نے انتظامیہ کی مدد سے اپنا کاروبار شروع کیا اور دوسروں کے لیے روزگار پیدا کر رہی ہیں۔ انتظامیہ خواتین کی فنی صلاحیتوں کو اُجاگر کرکے انہیں خودکفیل بنانے اور اُن میں خود اعتمادی پیدا کرنے کی کوششیں کر رہی ہے۔'