کشمیرمیں سمیہ صدف کے کامیاب ہونے کی کہانی

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 20-01-2021
 ایک کشمیری خاتون کی سرکاری اسکیموں سے فیضیاب ہونے کی مثالی داستان
ایک کشمیری خاتون کی سرکاری اسکیموں سے فیضیاب ہونے کی مثالی داستان

 

آشا کھوسہ / دہلی
 مقبوضہ کشمیر کےمظفرآباد میں پیدا ہونےوالی سمیہ صدف اکثر لوگوں سے یہی سنتی تھیں کہ ایک دن ان کی شادی ہوگی اوروہ ا پنے نئے گھرچلی جائیں گی۔ شادی کے بعد وہ اپنے شوہر کے گھر آگئیں جوکہ لائن آف کنٹرول کے دوسری جانب کپواڑہ میں واقع ہے۔ اپنے’حقیقی گھر‘میں آنے کے بعد وہ اس گمان میں تھیں کہ اب ان کی زندگی کا سنہری دورشروع ہوجائے گا۔ لیکن وہ اس حقیقت سےنا آشنا تھیں کہ ان کی زندگی ہندوستان پاکستان تنازعہ کی نذر ہو جائے گی۔
سمیہ عبدالمجید کی زوجہ بن کرکپواڑہ آگیئں۔ ان کے شوہرابتدائی تعلیم کے دوران ہی''مسلم جانباز فورس'' کا حصّہ بن گئے تھے۔ یہ تنظیم ایک شدت پسند گروپ ہے جس کی سرپرستی پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کرتی ہے- اس میں نوجوانوں کو ہتھیار چلانے کی تربیت دی جاتی ہے۔عبدالمجید ہتھیاروں کی تربیت کے لئے ہی مقبوضہ کشمیر گئے۔عبدالمجید نے''آواز دی وائس'' سے گفتگو میں بتایا کہ بہت جلد شدت پسندی میں اس کی دلچسپی کم ہوتی چلی گئی۔وہ اس سے الگ تھلگ ہوگیا تھا۔ اس کو گزر بسر کے لئے پانچ ہزار کا معاوضہ اور دیگر سہولیات ملتی تھیں۔ بعد میں اس نے مقامی یونیورسٹی سے گریجویشن کی، سمیہ سے شادی کی۔ اب دونوں کے چار بچے ہیں۔
بڈگام منتقل ہو گئے
عبدالمجید بتاتے ہیں کہ ان کی زوجہ کا موقف تھا کہ ہمیں بہتر مسقبل کے لئے خود کفیل ہونا ہے۔ اس کے لئے ہمیں امداد لینے کے بجائے اپنا خود کا کام شروع کرنا چاہیے۔ اسی عزم اور حوصلہ کے ساتھ ان کی زوجہ نے اپنا خود کا کام شروع کیا۔ سمیہ کی اسی عزیمت اور قابلیت کا ثمرہ ہے کہ آج ان کے پاس ایک ڈیری فارم ہے جس میں روزانہ 150  لیٹر دودھ کی پیداوار ہوتی ہے۔ علاوہ ازیں ان کے پاس ایک پولٹری فارم بھی ہے۔ کم وسائل کے باوجود اس کامیاب تجربے سے یہ کنبہ عوام کو خود روزگارکے مواقع پیدا کرنے کی ترغیب دے رہا ہے۔ سمیہ اب گھر کے اطراف کی خواتین کو بھی سرکاری اسکیموں کا فائدہ اٹھانے کی جانب رغبت دلاتی ہیں۔سمیہ نے ''آواز دی وائس'' کو بتایا کہ مظفرآباد میں انہوں نے کبھی کسی سرکاری اسکیم کے بارے میں نہیں سنا تھا۔جبکہ یہاں کشمیر میں اسکیموں کی افراط ہے لیکن لوگوں کو اس کا علم ہی نہیں ہے۔سمیہ اب ''امید'' نامی ایک سرکاری اسکیم کے تحت متعدد سیلف ہیلپ گروپ کی سربراہی کر رہی ہیں۔

kashmir-lady-business

     سمیہ صدف نے سرکاری اسکیموں کا فائدہ اٹھایا اور وادی کی خواتین کو ایک نئی راہ دکھائی    


وزیر اعظم سے بات کا موقع
حال میں ہی ایک ڈیجیٹل میٹنگ میں وزیراعظم نے ان سے بات کی۔ ان کے کامیاب کاروباری تجربے کی وجہ سے انہیں ضلع انتظامیہ کی جانب سے وزیراعظم سے گفتگو کرنے کے لئے منتخب کیا گیا جہاں وہ دیہی اور چھوٹے کاروباریوں کی نمائندگی کر رہی تھیں۔ اجتماعی زندگی میں داخل ہونے کی خواہش مند سمیہ نے بترگام ڈسٹرکٹ ڈولپمنٹ کونسل کا چناؤ لڑا۔انہوں نے مزید کہا کہ ڈسٹرکٹ ڈولپمنٹ کونسل کا چناؤ جیتنے کے بعد میں خواتین اور بچوں تک سرکاری اسکیموں کے زیادہ سے زیادہ فوائد پہنچا سکتی ہوں۔ ان کا کہنا تھا کہ سرکاری اسکیموں کے ساتھ دو مسائل ہوتے ہیں۔ یا تو عوام ان سے لا علم ہوتے ہیں یا سرکاری افسر اسکے لئے رشوت مانگتے ہیں۔ 
وہ خود بھی اس حقیقت سے روبرو ہو چکی ہیں جب انہیں ایک گو شالا اور پولٹری فارم سے متعلق کسی سرکاری اسکیم کے تحت ملنے والی سبسڈی روک لی گئی۔سمیہ بتاتی ہیں کہ افسروں نے سبسڈی کی کل رقم کا 10  فیصد رشوت کے طور پر مانگا، جبکہ رشوت دینا میرے اصولوں کے منافی تھا۔اسی دوران ان کا خدمت خلق کا خواب دو پڑوسیوں کے درمیان ہونے والے تنازعہ کی بھینٹ چڑھ گیا۔ ڈسٹرکٹ ڈولپمنٹ کونسل کے چناؤکی گنتی ابھی چل ہی رہی تھی کہ پرسایڈنگ افسر نے گنتی رکوا دی۔ انتظامیہ کو اچانک خیال آیا کہ سمیہ کا ہندوستانی نہ ہونا ان کی الیکشن میں امیدواری پر اثرانداز ہو سکتاہے۔
شہریت کا مسئلہ 
یہ پوچھے جانے پر کہ وہ ہندوستانی شہریت کے لئے درخواست کیوں نہیں دیتی، سمیہ کہتی ہیں کہ کیا لڑکیوں کو یہ سکھایا نہیں جاتا کہ ان کا اصل گھر ان کی سسرال ہے۔ اس اصول کے تحت تو وہ ہندوستانی ہیں کیونکہ انکی شادی ایک ہندوستانی شخص سے ہوئی ہے۔دوسری جانب حکومتی اور انتظامی امور معاشرے کی روایات پر نہیں چلتے۔وہ قانونی نقطے کے پابند ہوتے ہیں۔قانون کے مطابق سمیہ جموں اورکشمیرکی شہری نہ ہونے کی صورت میں کشمیر کے الیکشن میں حصّہ لینے کی اہل نہیں ہیں۔ اور کشمیر کا شہری بننے کے لئے پہلے ہندوستانی شہریت کی درخواست دینی پڑے گی۔
واضح رہے کہ سمیہ کی شہریت پر اٹھنے والے تنازعہ نے ان  400  دیگر پاکستانی خواتین کی قسمت پربھی سوالیہ نشان لگا دیا ہے جو بازآباد کاری اسکیم کے تحت ہندوستانی قومی دھارے میں لائے جانے والے سابق شدت پسندوں کی بیویاں ہیں۔ان خواتین کی شہریت کی حیثیت ابھی تک واضح نہ ہونے کی وجہ سے ان کے پاس سفری دستاویز نہیں ہیں۔ اس لئے یہ خواتین  اپنے رشتے داروں سے ملاقاّت کی غرض سے پاکستان جانے کے لئے سفری دستاویز کی مانگ کر رہی ہیں۔
عبد المجید کی طرح جو دو سابق شدت پسند بغیر دستاویز پاکستان میں پھنسے تھے، ان میں سے زیادہ تر واگھا بارڈر، دہلی ایئرپورٹ اور ایل او سی کے دو بس روٹوں کے ذریعہ اپنے خاندان واپس لوٹ آئے ہیں۔حالاں کہ سمیہ اور ان کے شوہر نیپال کی سرحد سے ہندوستان آئے تھے، اس کے باوجود ہندوستان آنے والے ان سابق شدت پسندوں کوخاندان سمیت ہندوستان میں رہنے کی اجازت تو ہے، پر ان کی شہریت کے حوالے سے انتظامیہ کے پاس کوئی واضح پالیسی نہیں ہے۔ دوسری جانب جموں کشمیر حکومت کی باز آبادکاری پالیسی کے مطابق ان لوگوں سے ہندوستانی یا جموں کشمیرکے قانون کے مطابق ہی سلوک روا رکھا جاتاہے۔