حیدرآبادی کم عمر گلوکارہ 'جیوتی' جن کو مہدی حسن کی آواز خدا کی آواز لگتی ہے

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 25-01-2021
ابھرتی ہوئی غزل گلوکارہ جیوتی
ابھرتی ہوئی غزل گلوکارہ جیوتی

 

واجد اللہ خان/حیدرآباد

کہتے ہیں کہ غزل گلوکاری بچوں کا کھیل نہیں ہے  لیکن اس لڑکی کے لئے غزل گلوکاری بچوں کے کھیل جیسی ہی ہے۔ایک ایسی عمر جس میں بچے کھیل کود میں ہوتے ہیں، اس عمر میں یہ لڑکی سُر اور تال کے ساتھ ساتھ مختلف راگ اور راگینیوں کے سنگ کھیل رہی ہے اور دنیا سے بے نیاز اپنے فن کو نیا آہنگ دینے و پروان چڑھانے میں مصروف دکھائی دیتی ہے ۔اس کی مسحور کن آواز نے غزل گائیکی کو ایک نئی جلا بخشی ہے اور اسے دیکھ کر یہ قطعی نہیں لگتا کہ یہ پیشہ ور غزل گلوکارہ ہے جس کو برصغیر کے غزل کے بادشاہ مہدی حسن کی آواز مانو خدا کی آواز لگتی ہے۔آنکھوں میں روشن مستقبل کے خواب سجائے حیدرآباد کے پرانا شہر سے تعلق رکھنے والی 15سالہ جیوتی شرما کے آج چرچے عام ہو رہے ہیں۔ مشہور کشمیری صوفی گیت اس کے فن کو نئئ بلندیاں دینے میں معاون بن رہا ہے۔

 

پاکستان میں بھی اسے پسندیدگی کی نظر سے دیکھا گیا

جیوتی شرما جن کی گلوکاری کو پاکستان میں بھی کئی افراد نے سوشیل میڈیا کے ذریعے پسند کیا، ایک خاص ملاقات میں ہمیں بتایا کہ ہند و پاک کے فنکاروں میں کوئی بھید بھاو نہیں ہے۔وہاں کے لوگ ان کی غزل گائیکی کو سوشیل میڈیا کے ذریعہ پسند کر رہے ہیں جو اچھی بات ہے، حالانکہ پاکستان میں کافی سرکردہ غزل گلوکار ہیں۔اپنے دادا پنڈت رتن لال شرما اور والد گووند شرما سے موسیقی کی تربیت حاصل کرنے والی جیوتی نے کہا کہ ان کے اس فن میں کبھی مذہب حائل نہیں ہوا۔ کئی لوگ ان کی آواز کو پسند کرتے ہوئے ان کو نئی نئی تجاویز دیتے ہیں جس سے ان کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔کئی لوگ ان سے کہتے ہیں کہ بڑی فنکارہ بننے کے بعد گھمنڈ مت کرنا۔

اردو الفاظ سمجھنے میں دشواری

اس سوال پر کہ آیا اردو کے الفاظ کی ادائیگی اور اس کو سمجھنے میں ان کو مشکل پیش آتی ہے تو اس کم عمر فنکارہ کا کہنا تھا کہ اگرچہ کہ ان کی مادری زبان ہندی ہے تاہم غزلیات چونکہ اردو میں ہوتی ہیں  اسی لئے وہ غزل گلوکاری میں اردو کے الفاظ کی ادائیگی کو ترجیح دیتی ہیں اور اگر کوئی مشکل لفظ ہوتا ہے تو وہ گوگل کی مدد سے یا پھر اپنے والد کی مدد سے اس کو سمجھنے کی کوشش کرتی ہیں۔ان کاکہنا ہے کہ حیدرآباد میں اردو کا ماحول ہے اور ان کی نظر میں اردو کا تلفظ مشکل نہیں ہے۔  وہ اب غزل گائیکی کے ساتھ ساتھ ہارمونیم بھی سیکھ رہی ہیں۔اس استفسار پرکہ فیس بک پر ان کی گائیکی کو پسند کیا جا رہا ہے تو ان کو کیسا محسوس ہورہا ہے ؟ جیوتی نے نشاندہی کی کہ فیس بک پر جب لوگ ان کی غزل گائیکی کو پسند کرتے ہیں تو انہیں اچھا لگتا ہے۔ان کی یہ عین خواہش ہے کہ لوگ دوسروں کوان کے ویڈیوز شیئر کریں جس سے ان کا فن بڑھے گا۔ لوگ جب ان کی تعریف کرتے ہیں تو ان کو اچھا لگتا ہے۔ وہ چاہتی ہیں کہ ہندوستان کا نام فخر سے اونچا ہو۔

حیدرآباد، بنگلورو کے ساتھ ساتھ ملیشیا میں بھی گلوکاری کے ذریعے اپنے فن کا مظاہرہ کرنے والی جیوتی کو بہتر گلوکاری پر وہاں پر انٹرنیشنل اگادی کیرتی ایوارڈ سے بھی نوازا گیا ہے۔ انہوں نے اس پروگرام میں فلمی گیت سنائے تھے۔ان کی کانوں میں رس گھولنے والی آواز کی ستائش آشا بھونسلے نے بھی کی۔ آشابھونسلے کے ساتھ ساتھ غلام علی، بیگم اختر ان کو اچھے لگتے ہیں جبکہ مہدی حسن ان کے لئے رول ماڈل ہیں اور ان کی آواز میں ان کو خدا کی آواز نظر آتی ہے۔ان کی گائیکی سے انہیں بہت کچھ سیکھنے کو ملتا ہے۔مہدی حسن صاحب ان کے لئے ایک جذبہ ہیں کیونکہ ان کے والد گووند شرما بچین ہی سے مہدی صاحب کی غزلیں انہیں سنایا کرتے ہیں۔ ان غزلوں سے ان کو کافی کچھ سیکھنے کو ملتا ہے۔

جیوتی اپنے آپ کو خوش قسمت مانتی ہیں کیونکہ ان کا خاندان میوزیکل ہے اور بچین ہی سے ان کے دادا اور والد کی یہی کوشش رہی تھی کہ وہ بھی ایک اچھی گلوکار بنے، دونوں نے گھر میں غزل کا ماحول دیا جس کے نتیجہ میں ان میں غزلگائیکی کا شوق بڑھا جو بڑھتا ہی چلا گیا۔ خاندان کے اس تعاون پر وہ کافی مسرور ہیں۔اس سوال پر کہ انہوں نے غزل گائیکی کو ہی زیادہ ترجیح کیوں دی تو انہوں نے کہاکہ ان کو غزل گائیکی میں دلچسپی ہے اور فلمی گیت تو بعد میں بھی گائے جاسکتے ہیں۔ وہ ہارمونیم بھی سیکھ رہی ہیں۔