حجاب : تعلیم و ترقی کی راہ میں رکاوٹ نہیں

Story by  ایم فریدی | Posted by  Shah Imran Hasan | Date 10-12-2021
 تعلیم کے حصول میں حجاب کوئی رکاوٹ نہیں
تعلیم کے حصول میں حجاب کوئی رکاوٹ نہیں

 

 

ایمان سکینہ، نئی دہلی

حجاب اس کپڑے کو کہتے ہیں جو عام طور مسلم خواتین باہر یا غیر محرم مردوں کے سامنے سر یا چہرے کو چھپانے کے لیے استعمال کرتی ہیں۔دنیا کے مختلف ممالک کے میں مسلم خواتین الگ الگ انداز میں پہنتی ہیں۔ قرآن مقدس کے مطابق مسلمان مرد و خواتین دونوں سے یہ کہا گیا ہے کہ وہ تواضع والا لباس زیب تن کریں۔عام طور پر خواتین غیرمحرم مردوں کے سامنے حجاب پہنتی ہیں۔ تاہم اس بارے میں اختلاف ہے کہ حجاب پہننا واجب ہے یا نہیں؟

قرآن میں پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بھی حکم دیا گیا ہے کہ وہ اپنے خاندان کے افراد اور دیگر مسلم خواتین سے کہیں کہ جب بھی وہ باہر نکلیں تو حجاب یا پردہ کا استعمال کریں۔ایسا کرنے سے انہیں ہراساں نہیں کیا جائے گا۔خیال رہے کہ خواتین کے لباس کے بارے میں قرآن کی آیات میں خمار (پردہ) اور جلباب (چادر) کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں نہ کہ حجاب۔

تاہم یہاں بحث کا موضوع یہ نہیں ہے کہ اسلام میں حجاب لازمی ہے یا نہیں بلکہ کیا حجاب خواتین کو تعلیم حاصل کرنے پر پابندی لگاتا ہے یا نہیں؟ اسلام میں تعلیم کو ایک اہم مقام حاصل ہے۔ پیغمبر محمد اور ان کے ماننے والوں نے ہمیشہ لوگوں کو تعلیم حاصل کرنے کی ترغیب دی ہے۔

پیغمبر اسلام کا ایک مشہور قول ہے کہ تعلیم حاصل کرو چاہے تمہیں چین کا سفر ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔ چین کا فاصلہ اس وقت مکہ اور مدینہ سے کافی دور مانا جاتا تھا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ تعلیم جیسی کوئی دولت نہیں اور جہالت جیسی کوئی غربت نہیں۔ آج کل حجاب پہننا ایک عام بات ہے، اور دنیا بھر میں لاکھوں خواتین اسے پہنتی ہیں۔

ان میں سے ہزاروں کاروباری خواتین ہیں، کارپوریٹ شعبے میں کام کر رہی ہیں یا یونیورسٹیوں میں پڑھاتی ہیں۔  یقینی طور پر، وہ تعلیم یافتہ ہیں، اسی وجہ سے وہ اپنی زندگی میں کام کر رہے ہیں اور پھل پھول رہی ہیں۔ حجاب پہننے والی خواتین تقریباً ہر بین الاقوامی یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کر رہی ہیں اور پیشہ ورانہ زندگی کے ہر پہلو میں کمال حاصل کر رہی ہیں۔

مسلم حکمران ممالک میں حجاب کی قانونی حیثیت اور منظر نامے کے بارے میں بات کرتے ہوئے، ایران ان چند ممالک میں سے ایک ہے جو حجاب کے استعمال کی پابندی کرتے ہیں۔ ایران میں سنہ 1980 میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ خواتین کو سرکاری دفاتر اور تعلیمی اداروں میں پردہ کرنا لازمی ہے۔ایسا نہ کرنے پر شرعی قوانین کے مطابق سزا ہو سکتی ہے۔

انڈونیشیا میں بھی حجاب پہننا لازمی ہے۔ سعودی عرب میں بھی خواتین کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے سر اور جسم کو مہذب لباس کے ساتھ ڈھانپیں۔ اگرچہ ان پابندیوں و قانوں کو پہلے بھی مسلم خواتین میں پردہ اور حجاب کا رواج پہلے سے جاری ہے۔ اب سعودی عرب میں حجاب کے قانون میں نرمی اختیار کی گئی ہے۔

ایران، سعودی عرب اور انڈونشیا وغیرہ میں ہر خاتون حجاب میں دیکھا جاسکتا ہے۔اس کے استعمال سے خاتون کی زندگی اور ان کے دفتری کام میں کوئی روکاوٹ پیدا نہیں ہوتی۔ باحجاب خاتون کو کہیں بھی آنے جانے کی اجازت ہے، مگر اس شرط کے ساتھ کہ وہ اپنے دائرہ میں رہ کر کام کریں گی۔آج کی نسل کی نظر میں حجاب کے تعلق سے عجیب سی غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ کچھ لوگ اسے رسوائی کی علامت سمجھتے ہیں۔ تاہم یہ تصورات ان چند لوگوں کی وجہ سے ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ خواتین صرف گھریلو کام کے لیے بنی ہیں۔  مگر یہ باتیں اسلام کے خلاف ہیں۔

تاریخ کے اوراق سے ان باتوں کو غلط ثابت کرتے ہیں کہ حضرت محمد کی اہلیہ خدیجہ بلاشبہ مکہ کی ایک کامیاب کاروباری خاتون تھیں وہ انہوں نے اسلامی حدود میں رہ کر کاروبار کیا۔ اس کے علاوہ وہ ساری زندگی پردہ میں رہیں، اور تمام کاموں بھی حصہ لیتی رہیں۔

موجودہ دور کی کچھ کامیاب حجاب پہننے والی خواتین میں ملالہ یوسف زئی اور زینب الغزالی وغیرہ کے نام لیے جاسکتے ہیں،یہ وہ خواتین ہیں جو فخر کے ساتھ حجاب لگاتی ہیں۔ پاکستانی شہری ملالہ یوسف زئی خواتین کی تعلیم کے لیے نوبل انعام پانے والی دنیا کی سب سے کم عمر خاتون ہیں۔

وہیں زینب الغزالی ایک مصری کارکن اور مسلم خواتین کی تنظیم(Muslim Women’s Association) کی بانی تھیں۔ حجاب کے استعمال سے خواتین کی خوبصورتی لوگوں کے سامنے نظر نہیں اآتی ہے، ان کی خوبصورتی عیاں نہیں ہوتی، ان کا جسم چھپا رہتا ہے۔

اس لیے کہا بھی گیا ہے کہ عورت کی خوبصورتی صرف اس کے شوہر کے لیے ہوتی ہے نہ کہ ہر آنے جانے والے غیر محرم مرد کے لیے۔