انشا ء نور-حضرت نظام الدین کی خواتین کےلئے نئی روشنی

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 26-01-2021
دستکاری کی مصنوعات ''نظام الدین کی سیکولرقدروں '' کی بھی عکاسی کرتی ہیں۔
دستکاری کی مصنوعات ''نظام الدین کی سیکولرقدروں '' کی بھی عکاسی کرتی ہیں۔

 

          * ایک پرانی اور وخستہ حال عمارت ''مشاق منزل'' نے بنا دئیے خوابوں کے محل۔

                                         انشا ء نورکے فیب انڈیا اور رنگ سوترا اور انڈیا ہیبی ٹیٹ سینٹر جیسے برانڈ اب خریدار بن چکے ہیں۔ *

                                                بیشالی / نئی دہلی

شبنم نے بڑے فخر کے ساتھ پنے ہاتھوں میں کرسمس ٹری کا مبارکبادی کارڈ تھامے ہوئے تھی۔سرخ کاغذ پر سبز رنگ کا کرسمس ٹری بنا ہوا تھاجبکہ کچھ کاغذی نقش و نگار کے نمونے اس کے پیروں کے پاس پڑے ہوئے تھے۔یہ ایک خوبصورت کارڈ تھا۔پر کشش بھی۔آپ سوچیں گے  کہ اس طرح کیخوبصورت کارڈ مشہور برانڈ آرچیز کے ہی ہوسکتے ہیں، لیکن یہ’انشاء نور‘نامی ایک تنظیم کے بینر تلے کام کرنے والی 10 خواتین کا کام ہے، جو آغا خان ٹرسٹ فار کلچر (اے کے ٹی سی) کی ایک کوشش کا نام ہے۔ جوحضرت  نظام الدین بستی میں بہتری لانے کی کوشش کررہی ہے۔

 ایک پرانی اور وخستہ حال عمارت ہے ''مشاق منزل''۔جس میں یہ مسلم خواتین، اور ان کے ساتھی، اپنے خوابوں کو پرلگانے میں مصروف ہیں۔ جس کی سر پرستی کررہا ہے ’آغا خان ٹرسٹ فار کلچر‘۔جس نے 2010 میں بے روزگار خواتین کیلئے آرٹس اور دستکاری میں ایک تربیتی مرکز قائم کیا تھا۔ یہ وہ علاقہ ہے جہاں اے کے ٹی سی نے ہمایوں کے مقبرے کے ساتھ تقریبا 60 اسلامی یادگاروں کو تحفظ دینے کیلئے خصوصی پروگرام چلایا ہے۔ آرکو لو جیکل سروے آف انڈیا (اے ایس آئی) کے ساتھ معاہدہ کے بعد ہمایوں کے مقبرے کا کمپلکس، سندر نرسری کے مقبرے، مزارِ غالب اور سبز برج کی مرمت کی گئی ہے۔

insha e noor hazratnizamuddin     

دستکاری کے خوبصورت نمونے     


انشا ء نور‘ کی بات کریں تواس مہم کا آغاز صرف پانچ خواتین کی صرف سلائی اور ٹیلرنگ کے کلاسوں سے ہوا تھا،مگر پھر جلد ہی’آری کڑھائی‘ کے پانچ فعال مراکز قائم ہوگئے۔ سنجھی کاغذی دستکاری اور فرانسیسیانداز میں کرو شیا کا کام مقبول ہوگیا۔ اس وقت تقریبا 100 خواتیناب اس سے جڑی ہوئی ہیں بلکہ باعزت طریقہ سے اپنی معاشی حالات کو بہتر بنا رہی ہیں۔

 انشاء نور کی ایک ممبر 50 سالہ شبنم شاہین جو کہ تین بچوں کی ماں ہیں،کہتی ہیں کہ جب میں نے 2010 میں یہاں آنا شروع کیا تھا، میں سنجھی کے بارے میں کچھ نہیں جانتی تھی۔آغا خاں ٹرسٹ  نے کچھ اچھے اساتذہ کو تعینات کیا تھاجنہوں نے ہمیں سنجھی کی تاریخ کے بارے میں بتایا، کہ اس کی ابتدا متھرا (اترپردیش) میں کیسے ہوئی اور یہ کنہیا جی کیلئے وقف تھی۔ آہستہ آہستہ، ہم نے سنجھی کو اپنا بنانیکیلئیاپنی مغل یادگاروں سیقینچی کاکام سیکھ لیا اور نقش و نگا ر بھی۔

insha e noor agha khan trust

محنت رنگ لائی ہے جدوجہد کے بعد


انشاء نور‘ کا مطلب ہے ’روشنی کی تخلیق‘۔ برسوں پہلے، جب اس خواتیننے اس  پروجیکٹکو شروع کیا تھاتوآغا خاں ٹرسٹ کے  ماہرین نے محسوس کیا کہ ان کے ٹیکسٹائل اور دستکاری کے ڈیزائن نظام الدین کی یادگاروں سے لئے جاسکتے ہیں۔آغا خاں ٹرسٹ فار کلچر کیڈائریکٹر جوتسنا لال کا کہنا ہے کہ ’پروجیکٹ کا مقصد علاقے کی ثقافت اور ورثہ کو آگے لے جانا ہے۔ مثال کے طور پر، جالی اسلامی فن تعمیر کا ایک اہم حصہ ہے۔ لہذا ہم نے سوچا کہ جب ہمارے ماہر کاریگر مزاروں پر پتھر کی جالیوں پر کام کر رہے ہیں ہم محفوظ کر رہے ہیں تو خواتین کاغذ اور دھاگے کی جالیاں بھی بناسکتی ہیں۔ سنجھی، آری اور کروشیا کا کام لڑکیاں کرتی ہیں۔ان مصنوعات کو جیسے نوٹ بک، بُک مارکس، دیوار ی سجاوٹ، بیگ، اسٹول، وغیرہ میں تبدیل کیا جاسکتا ہے۔

Hazrat Nizamuddin   Agha khan

محنت اور لگن کی مثال ہے یہ مہم


مقبروں کے نقش ونگار کا استعمال

انہوں نے نظام الدین کے مقبروں پر بھی مختلف نقشوں سے بڑے پیمانے پرمدد لیہے۔’انشا اسٹار‘ کا لوگو خودآغا خاں کے مقبرے سے لیا گیا ہے۔ اکبر کا کمانڈر انچیف رحیم کے مقبرے پر (پھولوں کا ڈیزائن) جو انشاء نور کی ڈائریوں پر مقبول ہے، جبکہ بو حلیمہ گیٹ وے کا ڈیزائن نوٹ بک کے کور پر استعمال کیا جارہا ہے جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ہمایوں کو گود میں کھلانے والی خادمہ تھیں۔نوٹ بک کے سرورق پر یہ ڈیزائن نمایاں ہیں۔گذشتہ سال کرسمس، دیوالی اور راکھی کی مصنوعات پر اس طرح کام کیا گیا،اس معاملہ میں سواتی بترا کا کہنا ہیم کہ ’۔کورونا نے ہمارے کاروبار کو بری طرح متاثر کیا ہے،کیونکہ ایسے تمام مقامات جہاں ہمارا سامان فروخت ہوتا تھا اس بحرانی دور میں بند رہے جن میں ہمایوں کے مقبرے کی دوکان بھی شامل ہے۔دیوالی میلہ بھی نہیں لگا اور مختلف سفارت خانوں میں بھیمیلے نہیں لگے۔2018میں ہمارا ٹرن اوور 45لاکھ روپئے کا تھاجو اس بار چند ہزار تک محدود رہا۔سواتی بترا پروگرام افسر ہیں۔

نئے حالات۔نیا انداز

 آغا خاں ٹرسٹ فار کلچر کی ایک اور سینٹر انچارج  اور پروگرام کو آرڈینٹر رتنا ساہینی کا کہنا ہے کہ ’ہم جانتے ہیں کہ لوگ اب تہواروں میں بہت زیادہ خرچ نہیں کررہے ہیں،لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ کوئی تہوار منا ہی نہیں رہا ہے۔لوگ اب بھی کچھ نہ کچھ خرید رہے ہیں،اس لئے ہم نے اپنی مصنو عات کا فیس بک اور انسٹا گرام پر تشہیر کرسکتے ہیں۔ جہاں سے بھی آرڈرز آتے ہیں ان کو کورئیر کرسکتے ہیں۔جس کے بعد ہم نے سنجھی سینٹر میں دیوالی لالٹین اور ٹیل لائٹ ہولڈرز (جو کٹ آؤٹ کے ذریعے سائے میں ڈیزائن کو ظاہر کرتے ہیں)، کرسمس کے خوبصورت کارڈز بنانا شروع کردیئے۔ آری سیکشن میں کڑھائی والے دیوالی کے سامان والیگفٹ باکس او’رکرسمس ٹری‘کے ساتھ زیورات جیسی گھنٹیاں، گیندیں، گھوڑے اور ستارے بنائے تھے۔ کروشیا سیکشن نے راکھیاں تیار کرنا شروع کردی تھیں۔

سیکشن کی سربراہ، 40 سالہ سیما علی نے بتایا’۔'میں نے خود ہی تقریبا300 راکھیاں بنائیں، یہ تمام رنگوں اور ڈیزائنوں میں، جیسے پھول اور موتیوں کی مالا۔ مجموعی طور پر، مجھے لگتا ہے کہ انشاء نور نے 7000 راکھیاں فروخت کیں اور یہ ہمارے لئے اس وقت آمدنی کا ایک بہت بڑا ذریعہ تھا جب ہمارے شوہر بھی گھر بیٹھے تھے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ میں نے ہندو ثقافت کے بارے میں کچھ نیا سیکھا، جس میں ایک ’بھابھی راکھی‘ یا ’جھولتی راکھی ہے۔’ہم نے بھی اسے بنایا۔

insha e noor

ہنر کے خوبصورت رنگ 


سیکولر قدروں کی عکاسی

آری سیکشن کی 24 سالہ پروین کا کہنا تھا کہ یہ مصنوعات ''نظام الدین کیسیکولرقدروں '' کی بھی عکاسی کرتی ہیں۔ ''اس علاقے کے اکثریتی مسلمان، اور اقلیتی عیسائی اور ہندو، (صوفی بزرگ) حضرت نظام الدین کی درگاہ کے قریب پر امن طور پر رہتے ہیں۔ در حقیقت، ہمارے انشاء نور مرکز میں تمام عقائد کی خواتین کام کرتی ہیں۔ہم سب ساتھ مل کر کھانا کھاتے ہیں،جب کوئی بڑا آرڈر آتا ہے تو کسی ایک کے گھر پر اکٹھا بھی ہوجاتے ہیں تاکہ جلد سے جلد کام مکمل ہو سکے۔ انشا ء نور کے پلیٹ فارم پر کام کرنے والی خواتین میں کئی ایسی ہیں جو طلاق شدہ ہیں اور کئی ایسی ہیں جنہیں کوئی نہ کوئی بیماری ہے۔جبکہ یہ ادارہ ان کی آمدنی کا واحد ذریعہ ہے۔جبکہ دیگر کیلئے باہر کی دنیا میں جھانکنے کی واحد کھڑ کی۔

کیسے بدلی زندگی

23سالہ ہمیرا خان کا کہنا ہے کہ ’۔ اس سے قبل اس کو گھر سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں تھی،میں بستی نظام الدین کے قریب ایک بازار بھوگل تک نہیں جاسکتی تھی۔یہی نہیں جب اس پروفیکٹ سے جڑی تھی تو خاندان میں اس پر بھی اعتراض ہوئے تھے۔لیکن اب حالات بر عکس ہیں،وہ خام مال کی خریداری کیلئے دور دراز کے علاقوں میں جاتی ہے۔جس نے بچپن میں ہی اسکول چھوڑ دیا تھا۔اس کی ایک ساتھی سبحانہ عباسی اپنی آمدنی سے چشمہ اور دوائیں خرید چکی ہیں۔ان کی ایک خراب ہے۔وہ اللہ سے دعا کرتی رہتی ہیں جلد سے جلد حالات معمول پر آئیں تو زیادہ سے زیادہ کام ملے۔’انشا ء نور‘ نے دس سال تک کاروبار کرنے کے بعد 2019میں ایک پرائیوٹ کمپنی کے طور پر رجسٹریشن کرایا ہے۔آغا خاں ٹرسٹ فار کلچر نے 100میں سے30ممبران کو شئیر ہولڈر کے طور پررجسٹر کیا ہے۔جبکہ 11کو ڈائریکٹر بنایا ہے۔اب یہ پروگرام تقریبا مکمل ہو گیا ہے۔ڈئیزائن اور آؤٹ ریچ کی سینئر پروگرام افسر ارچنا سعاد اختر کا کہنا ہے کہ ہم لوگ کوشش کررہے ہیں کہ یہ گروپ مکمل طور پر خود  انحصارہو جائے۔انشا ء نورکے  فیب انڈیا اور رنگ سوترا اور انڈیا ہیبی ٹیٹ سینٹر جیسے برانڈ اب خریدار بن چکے ہیں۔خوشی کی بات یہ ہے کہ اب یہ لوگ اس کے ورکر نہیں بلکہ اس کمپنی کے مالک ہیں۔

insha e noor hazrat nizamuddin

ایک چھت کے نیچے ۔ایک مقصد اور ایک مشن


 آغا خاں ٹرسٹ کیا ہے؟

 * آغا خاں ٹرسٹ فا ر کلچر ان متعدد ایجنسیوں میں ایک ہے جن کی تشکیل آغا خاں ڈولپمنٹ نیٹ ورک نے صحت،تعلیم اور چھوٹی گھریلو صنعتوں کیلئے کی ہے۔

* آغا خان سوم کی وفات کے بعد شہزادہ کریم کی تخت نشینی کی رسومات 23 جنوری 1958 کو ادا کی گئی، شہزادہ کریم آغا خانی یا اسماعیلی مسلمانوں کے 49ویں امام بنے اور آغا خان چہارم کے لقب سے پہچانے جانے لگے۔ آغا خان ڈولپمنٹ نیٹ ورک  ان کا قا’م کردہ ہے۔

*آغا خان ڈیولیپمنٹ نیٹ ورک دنیا کے تقریباً 35 ممالک میں غربت اور انسانی زندگی کا معیار بہتر بنانے میں مصروف عمل ہے۔ آغا خان ڈیولیپمنٹ نیٹ ورک کے ذیلی اداروں میں آغا خان فاؤنڈیشن، آغا خان ہیلتھ سروسز، آغا خان پلاننگ اینڈ بلڈنگ سروسز، آغا خان اکنامک سروسز اور آغا خان ایجنسی فار مائیکرو فنانس شامل ہیں جن کی نگرانی شہزادہ کریم آغا خان خود کرتے ہیں۔

* آغا خان چہارم کو مختلف ممالک نے متعدد اعزازات اور خطابات سے بھی سرفراز کیا، انہیں 20 ممالک نے اپنے قومی اعزازات سے نوازا ہے، دنیا کی 19 بہترین یونیورسٹیوں نے انہیں ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری عطا کی ہے۔