انسانی خدمت کی مثال بنیں ۔ مسلم خاتون ایمبولینس ڈرائیور

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 28-01-2021
با ہمت خاتون کے جذبہ کو سلام
با ہمت خاتون کے جذبہ کو سلام

 

 محمد شمیم حسین / ۔کولکتہ

 کورونا کے لاک ڈاﺅن کے دوران انسانی خدمت کے بے مثال واقعات سامنے آئے،جن سے ایک بات تو واضح ہوگئی کہ کورونا کے خلاف جنگ میں جذبہءانسانیت نے سب سے اہم کردار ادا کیا ہے۔ لاک ڈاﺅن کے دوران جب دنیا گھروں میں قید تھی،اس وقت ایک طبقہ ایسا تھا جو مختلف عوامی سہولیات کےلئے خود کووقف کرچکا تھا۔ہر خوف اور خطرے پر بھاری تھا انسانی خدمت کا جذبہ۔اسی جذبہ نے ہندوستان کو دلائی ہے ایک جیت۔لوگوں نے نہ صرف پریشان حال لوگوں کی مدد کی بلکہ اپنی جان کی بازی لگا دی،بلکہ اس خدمت میں بہت سے اپنی جان قربان کر گئے۔ بنگال کے نارتھ دیناجپور کی مسلم خاتون سلینا نے اپنی زندگی میں ہمیشہ جدوجہد کی،جنہیں ماسٹر کی ڈگری کے باوجود کوئی ملازمت نہیں ملی تو انہوں نے ایک ایمبو لینس کا ڈرائیور بننا پسند کیا۔اس سے قبل انہوں نے پولیس کی ملازمت کےلئے بھی قسمت آزمائی تھی لیکن کامیاب نہیں ہوئی تھیں۔مگر جب ایک سماجی گروپ کی جانب سے خواتین کے روزگار مہم کے تحت ہنر سیکھانے کی پہل کی گئی تو سلینا نے ڈرائیونگ کےلئے حامی بھرلی۔جس کے سبب اس نے اپنے ایک بڑے خاندان کی کفالت کی ذمہ داری نبھائی ۔

لیکن اس کی زندگی کا سب سے بڑا امتحان اس وقت آیا جب ملک میں کورونا کا سایہ پڑا۔اس وقت سلینا نے انسانی خدمت کا ایسا جذبہ دکھایا ہر کوئی واہ واہ کئے بغیر نہیں رہ سکا۔ لاک ڈاﺅن کے دوران ایک خاتون مسلم ڈرائیور نے سینکڑوں مریضوں کو اسپتال تک پہنچانے کا جو خدمات انجام دی ہیں۔ وہ قابل تعریف ہے۔ ایک طرف تمام گاڑیوں پر روک لگا دی گئی تھی۔ ن کی وجہ سے سوائے ایمرجنسی حالات میں گاڑ یا ں نظر نہیں آرہی تھی۔ اس مصیبت کی گھڑی میں ایسے بھی بہت سارے لوگ ہیں۔ جن کے پاس اپنی گاڑیاں نہیں ہیں۔ اسپتال جانے کےلئے انہیں سیکڑوں نہیں ہزاروں روپے خرچ کرنے پڑتے تھے۔اس کے باوجود ایمبولینس سروس نہیں مل رہی تھی۔کچھ لوگ پیدل اسی طرح اسپتال کا رخ کر رہے تھے۔لیکن ان میں کچھ ایسے بھی لوگ رہیں۔ جو یہ سمجھتے ہیں کہ مشکل و قت میں سودے با زی نہیں بلکہ خدمت خلق کرنا چاہیے۔بہت سارے ایسے لوگ دنیا میں ہیں جو اس مشکل گھڑی میں انسانیت کا ساتھ دے رہے تھے۔ بھوکوں کو کھانا کھلا رہے تھے۔ بیماروں کو اسپتال پہنچا رہے تھے۔ اس خدمت میں عورتیں بھی پیچھے نہیں ر ہیں۔کہیں خواتین باورچی خانہکی ذمہ داری نبھا رہی تھیں۔ تو کہیں عورتیں اس مشکل

گھڑی میں اسپتالوں میں خدمات انجام دے رہی تھیں اور مریضوں کا علاج مستعدی سے کر رہی تھیں۔

 ایسے ہی ایک خاتون جن کا نام سلینا بیگم ہے۔ جو دکن حمة آباد رائے گنج (دکھن دیناج پور)سے تعلق رکھتی ہیں۔ اس لاک ڈاون کے دوران درجنوں مریضوں کو اپنی ایمبولینس سروس کے ذریعہبالکل مناسب کرایہ میں مریضوں کو اسپتال پہنچا رہی تھیں۔ وہ مریضوں کو روزانہ لے جاتی اور علاج مکمل ہونے کے بعد واپس گھر بھی پہنچاتی تھیں۔ کورونا وائرس کی وجہ سے زیادہ تر ڈ ر یور نے کام پر آنا بند کر دیا تھا۔وہیں کچھ ڈ ریوورکام بھی کر رہے تھے۔ لیکن ان میں سے کچھ اس مشکل گھڑی میں سودے بازی بھی کر رہے تھے کیونکہ زیادہ تر پرائیویٹ ایمبولینس راستے سے غائب رہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کہیں وہ خود کورونا سے متاثر نہ ہو جائے۔ ایسے میں سلینا بیگم جیسی خاتون ہر پل گاں والوں کے خدمت کے لئے تیار رہتی تھی۔ 

دو سال قبل نارتھ دیناجپور کے ڈی ایم،آر بند کمار منا،کچھ عورتوں کو ایمبولینس ڈرائیونگ کی تربیت دی تھی۔ سلینا بھی ان میں سے ایک ہیں۔ سلینا نے خود کہا کہ ان کے گروپ میں 15 عو ر تیں شامل رہی۔ جنہوں نے ڈرائیونگ کی تربیت حاصل کی اور روزی روٹی سے جڑی۔ ان کا کہنا ہے کہ اس سروس کے لئے ہر وقت وہ تیار رہتی تھی۔ بیک وقت پانچ مریضوں کو وہ ایمبولینس میں بیٹھا کراسپتال تک لے جا تی۔ انہوں نے کہا کہ میرے علاقہ میں زیادہ تر مریض رائے گنج گورنمنٹ میڈیکل کالج اینڈ ہسپتال کے آتے تھے۔ ہمت آباد ہیلتھ سینٹر سے میں انہیں اپنی ایمبولینس میںاسپتال تک پہنچانے کا کام آج بھی کرتی ہوں۔ لیکن لا ک ڈا;vن کی وجہ سے ہم نے کوئی حد مقرر نہیں کی تھی۔ مریضوں کو ضرورت کے مطابق ہم انہیں کسی بھی اسپتال اور نرسنگ ہوم لے جاتے رہیں۔ اور واپس انہیں ان کے گھروں تک بھی چھوڑنے کا کام انجام دیتی تھی۔تاکہ انہیں کوئی پریشانی نہ ہو۔ ضرورت پڑنے پر ہم دور کے اسپتال بھی جانے سے انکار نہیں کرتے۔ یہی وقت تھا مریضوں کا خدمت کرنے کا۔سلینا اپنی خدمات سے مطمئن ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ میں گھر میں واحد کمانے والی خاتون ہو۔اگر گھر پر کورونا کے ڈر سے بیٹھ جا تی تو اپنے گھر والوں کا پیٹ کیسے بھرتی۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا یہ پیسہ ضروری کام میں شمار کیا جاتا ہے۔ ایسے میں گھر کیوں بیٹھی رہتی۔ ہم نے حکومت کا گائیڈ کو دھیا ن میں رکھتے ہوئے کام کیا۔ سلینا بیگم روزانہ پانچ سے چھ مریضوں کورونا کے دور میںاسپتال یا نرسنگ ہوم پہنچانے کا کام انجام دیتی رہیں۔ان کے اس کام سے علاقے کے لوگ ان پر فخر کرتے ہیں۔آٹھ بھائی بہنوں میں سلینا سب سے چھوٹی ہے۔ایم اے تک تعلیم حاصل کی۔