آپ کی شخصیت کو چار چاند لگانے والی ساڑی

Story by  غوث سیوانی | Posted by  [email protected] | Date 13-07-2021
آپ کی شخصیت کو چار چاند لگانے والی ساڑی
آپ کی شخصیت کو چار چاند لگانے والی ساڑی

 

 

 

 ساڑی کوہندوستان کے قومی لباس کی حیثیت حاصل ہے۔یہ پاکستان میں بھی پہناجانے والا لباس ہے۔اس کی خوبصورتی دیدہ زیب ہوتی ہے کیونکہ یہ شخصیت کو نکھارنے کا کام کرتی ہے۔  

ساڑھی ایک لباس خاص ہے۔ہمارے یہاں یہ شادیوں اور اسکول کالج کی فیئر ویل پارٹیوں میں پہنا جانے والا پہناوا سمجھا جاتا ہے ۔کچھ گھرانوں میں بزرگ خواتین اب بھی مسلسل سوتی کپڑے کی ساڑھیاں گھروں میں بھی پہنتی ہیں اور تقسیم ہند کے بعد بھی یہ رجحان پاکستان میں ختم نہیں ہوا۔البتہ مخصوص اور محدود ضرور ہو گیا۔

ساڑھی ہندوستانی لباس  ہے۔ کئی سو برس پہلے سے پورے ہندوستان میں 9 گز کی ساڑھی پہنی جاتی تھی۔کُرتا شلوار،قمیض شلوار اور چوڑی دار پاجامے بھی اسی طرح مقبول پہناوے تھے۔ تقسیم کے بعد پاکستان آنے والے دہلی،لکھنوٴ،بھوپال،میرٹھ،حیدرآباد دکن اور مراد آباد کے علاوہ کئی علاقوں کے باشندے کراچی آکر آباد ہوئے۔

پارسی اور سندھی جو جہاں پہلے سے آباد تھے ان کے گھرانوں کی خواتین اکثریت ساڑھی پہنتی تھی اور پشت سے سینے پر لانے پر پلو ان کی ساڑھیوں کے خاص انداز ہوا کرتے تھے۔ بیشتر بڑی بوڑھیاں اب بھی اسی روایتی انداز کی ساڑھیاں پہنتی ہیں۔

ایسے پارسی گھرانے جو تقسیم کے بعد یہاں منتقل ہوئے تھے ان میں بھی یہی ثقافت دیکھی جاتی رہی۔ کراچی کی محبوب بخش مارکیٹ میں اب تو ایک ہی ہندوستانی ساڑھیوں کی دکان باقی رہ گئی ہے اور یہاں آپ کو بنارسی کاٹن،ململ،سادہ سوتی ،ریشمی ہر مٹیریل کی ساڑھی مل جاتی ہے۔

مالک دکان نے ہمیں بتایا کہ اردو بولنے والی کمیونٹی اب بھی بنارسی کاٹن کی ساڑھیاں شادیوں کے لئے خریدنے آتی ہیں۔ راجستھانی پرنٹس اور ہاتھیوں کی اشکال کے بارڈرز والی ساڑھیاں آج بھی پسند کی جاتی ہیں۔ پاکستان میں مدھم رنگ جبکہ پڑوسی ملک میں شوخ رنگوں کی ورائٹی دیکھنے کو ملتی ہے۔

لاک ڈاؤن کے دوران دستکاریوں اور ساڑھیوں کے کاروبار بھی چھوٹے پیمانے پر ہوئے ان میں ساری کا آفیشئل کی سوشل میڈیا اور مارکیٹنگ سے وابستہ رمشا شعیب سے ان کے خیالات جان کر کچھ حیرت نہیں ہوئی کیونکہ وہ بھی عام طرز فکر کا حوالہ دے رہی تھی۔

انہوں نے کہا کہ ”انسان زندگی بھر ایک جیسے لباس نہیں پہنتا نہ ہر روز ایک جیسا کھانا کھاتا ہے۔عام استعمال کی چیزوں کے رجحانات بھی وقتاً فوقتاً تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ہمارے کھانوں سے لے کر لباس اور گھروں کی آرائش سے فرنیچر بنوانے کے رجحانات تک اختراعات اور جدید طرز فکر میں ڈھلتے ہیں۔

خواتین اپنے آس پاس تبدیلیاں چاہتی ہیں رسم و رواج میں دوسری ثقافتوں کے اثرات بھی شامل ہوتے چلے جاتے ہیں۔ مثلاً ہم مہندی کی سادہ تقاریب کیا کرتے تھے مگر 80 کی دہائی سے اس چھوٹے سے فنکشن کو ڈھولکی اور پُرلطف عشائیے کے ساتھ ساتھ رقص اور گانوں کے مقابلوں تک وسعت ملی،دلہنوں کا جوڑا گہرے سرخ رنگ کے غرارے کی طرح ہوتا تھا اب آف وائٹ، پنک ،عنابی،ارغوانی اور بھورے رنگ کے ساتھ قرمزی اور سرخ رنگ کی پٹیوں کے امتزاج سے شاندار شلواریں،غرارے،میکسیاں،کلیوں والے لباس پہننے لگے۔

بنارسی،کمخواب،جمادار اور ایسے ہی دوسرے کپڑوں کے بجائے میسوری اور Net فیشن میں آگئی اب روائیت اور جدت کا نچوڑ ہوتا ہے۔دلہن کا جوڑا دنیا اسے سراہتی ہے۔ ساڑھی جیسا لباس بھی انقلا بات زمانہ کے اثرات سے متاثر ہوا۔9 گز کی ساڑھی،یا 61/2گز پر آگئی۔کامدار کے علاوہ سادہ ساڑھیاں اور کامدار بلاؤزر فیشن میں آگئے۔

بلاؤز سکڑ بھی گئے اور جدیدیت کے نام پر قدرے بے پردگی کا تاثر بھی غالب آگیا۔ فلم کے میڈیا نے اپنی کیریکٹرائزیشن کے حساب سے ہیروئن کی ساڑھی اور بلاؤز کا حلیہ بگاڑ دیا اس باوقار لباس کو نئے پیراہن میں ڈھال لیا۔

عام خیال یہ بھی ہے کہ ساڑھی صرف دُبلی پتلی نازک اندام اور لمبی خواتین پر جچتی ہے۔یہ لباس ہر رنگ،ہر قامت اور ہر طرح کی جسامت رکھنے والی خواتین پر جچتا ہے۔بشرطیکہ وہ اسے باوقار انداز سے پہنیں اور بدن کے زاویوں کی غیر ضروری نمائش نہ کریں۔