آواز دی وائس : نئی دہلی
افغانستان میں حالات دنیا کو پریشان کررہے ہیں ،افغان عوام بے حال ہیں بیس سال کے امن کے بعد ایک بار پھر ملک میں خانہ جنگی کا عالم ہے۔ لیکن اس پورے المیہ کے دوران سب سے گھناونا کھیل پاکستان کا رہا ہے۔
پاکستان نے شمالی وزیرستان سے ایک ماہ قبل دس ہزار دہشت گردوں کو افغانستان میں داخل کیا تھا جو اب اس سرزمین پر طالبان کے ساتھ ملک پر قبضہ کی جنگ لڑ رہے ہیں۔
دنیا اس کھیل کو دیکھ رہی ہے ،اس کی مذمت کررہی ہے۔ یہی نہیں خود افغانستان میں پاکستان کے خلاف نعرے بلند ہورہے ہیں،لوگ سڑکوں پر آگئے ہیں۔ ہر دن مختلف شہروں میں جلوس نکل رہے ہیں اور طالبان کے سایتھ پاکستان کے خلاف نعرے سنائی دے رہے ہیں۔
"ما طالب را هیچ قبول نداریم"
— RTA Dari (@rtadari) August 11, 2021
شماری از باشندگان ولایت پنجشیر شب گذشته به حمایت از نیروهای امنیتی در مقابل حملات هجومی و بیرحمانهی طالبان در جادهها نعرهی الله اکبر سر دادند.#SanctionPakistan #StopTerrorism #PakProxyWarAfg #TalibanWarCrimes pic.twitter.com/HJYMYZMLoX
طاالبان کے پیچھے چھپا ہے پاکستان اس سے قبل افغانستان کی صورت حال پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے خصوصی اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے غلام اسحاق زئی نے کہاکہ ’وہ جو ان (طالبان) کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں اور ان کے ساتھ شامل ہیں، یقینی طور پر اس سے فائدہ حاصل کریں گے، لہذا یہ کوئی سول وار نہیں ہے بلکہ مجرمانہ اور دہشت گرد نیٹ ورک ان کے کیمپوں کے پیچھے سے لڑ رہے ہیں۔
خاص طور پر طالبان کی جنگی مشین کو مستقل طور پر ابھی بھی پاکستان کی طرف سے محفوظ پناہ گاہیں اور لاجسٹک سپورٹ حاصل ہے۔‘ لاتعداد ثبوت موجود ہیں افغانستان کو سب علم ہے کہ کھیل کہاں سے کنٹرول ہورہا ہے۔
سلامتی کونسل سے خطاب میں غلام اسحاق زئی نے مزید کہا کہ ’ڈیورنڈ لائن کے قریب طالبان جنگجوؤں کے جمع ہونے، افغانستان میں داخل ہونے، فنڈز اکٹھے کرنے، اجتماعی تدفین کے لیے لاشوں کی حوالگی اور پاکستانی ہسپتالوں میں طالبان جنگجوؤں کے علاج کی ویڈیوز بھی منظرعام پر آچکی ہیں، جو نہ صرف سلامتی کونسل کی 1988 کی پابندیوں سے متعلق قرارداد کی خلاف ورزی ہے بلکہ پاکستان کے ساتھ مل کر افغانستان میں جاری جنگ کے خاتمے کے عمل میں عدم اعتماد کی وجہ بھی ہے۔
ان حالات میں پاکستان کے خلاف بین الاقوامی سطح پر پابندیوں کے ساتھ کارروائی کی جانی چاہیے۔