جامعہ ملیہ اسلامیہ فاونڈیشن ڈے ۔ گاندھی جی سناتنی روایت اور مذہب کے تکثیری وژن کے حامی تھے ۔پروفیسر سنجیو کمار

Story by  ATV | Posted by  [email protected] | Date 02-11-2025
جامعہ ملیہ اسلامیہ  فاونڈیشن ڈے ۔ گاندھی  جی  سناتنی روایت اور مذہب کے تکثیری وژن کے حامی تھے ۔پروفیسر سنجیو کمار
جامعہ ملیہ اسلامیہ فاونڈیشن ڈے ۔ گاندھی جی سناتنی روایت اور مذہب کے تکثیری وژن کے حامی تھے ۔پروفیسر سنجیو کمار

 



گاندھی نے سناتنی روایت اور مذہب کے تکثیری وژن کی وکالت کی اور رام راجیہ کے تصور کو عقیدے کی بنیاد پر سمجھا نہ کہ مذہبی بالادستی کی صورت میں۔

نیلسن منڈیلا سینٹر برائے امن و رفعِ تنازعات(NMC-PCR)، جامعہ ملیہ اسلامیہ نے اپنے قیام کے 105 سال مکمل ہونے کی تقریبات کے سلسلے میں ’’مہاتما گاندھی کا سوراج‘‘ کے عنوان سے ایک نہایت اہم اور فکر انگیز ورکشاپمیں دہلی یونیورسٹی کے پروفیسر سنجیو کمار نے ان خیالات کا اطہار کیا

پروفیسر سنجیو کمار نے مہاتما گاندھی کے بنیادی تصورات اور ان کی عصری معنویت پر توجہ مرکو ز رکھتے ہوئے پیچیدہ و ثروت مند اخلاقی اور وجودیاتی نظریات کے فریم ورک پر روشنی ڈالتے ہوئے کہاکہ گاندھی نے ’سناتنی پرمپرا‘ اور مذہب کا تکثیری وژن کی وکالت کی۔گاندھی کے رام راجیہ کے اپروچ میں مذہب کے بجائے اعتقاد میں یقین کارفرما تھا جسے مذہب کے تعاملی اور انسٹرومینٹل نظریات کے درمیان امتیاز کرکے سمجھا جاسکتاہے۔ کیوں کہ اعتقاد ایک مجرد،موضوعی تصور ہے۔ایسے میں اعداد و شمار کا نظریہ یا مادہ اور سماج کے معروض نقطہ نظر ثانوی چیز بن جاتی ہے اور گاندھی کا تصور کہ ”کمزورمیں سچ بولنے کی ہمت ہوتی ہے‘ واضح اور عیاں ہوجاتاہے۔اپنی دلچسپ اور فلسفیانہ گفتگو میں انہوں نے بھگوت گیت اور ہند سوراج،صداقت کے تصورات، اخلاقیات کی زندگی،اور تکلیف اور عرفان ذات کی وجودیاتی اور ماہیتی پیچیدگی کا تفصیل سے جائزہ پیش کیا۔انہوں نے حکومت کے سلسلے میں گاندھی کی فہم پر بھی اظہار خیال کیا اور اسے سخت اخلاقی، سیلف ٹیکچویل عمل بتایا جو غیر ادارہ جاتی اتفاق رائے کے نظریے پر کام کرتی ہے۔انہوں نے اپنی گفتگو کے اخیر میں گاندھی کے سوراج کو بے خوف تنقید قراردیا۔

اپنے افتتاحی خطبے میں پروفیسر محمد مہتاب عالم رضوی نے کہا کہ جامعہ کے 105 سال مکمل ہونے پر مہاتما گاندھی کی خدمات کو یاد کرنا لازم ہے کیونکہ گاندھی جی نے نہ صرف ملک کی آزادی بلکہ جامعہ کی بنیاد کے استحکام میں بھی نمایاں کردار ادا کیا۔ انہوں نے کہا کہ ’’جامعہ ملیہ اسلامیہ گاندھیائی فلسفے کا جیتا جاگتا مظہر ہے۔‘‘

انہوں نے وضاحت کی کہ گاندھی کے نزدیک سوراج صرف سیاسی آزادی کا نام نہیں بلکہ ذہن، جسم اور روح کی خودمختاری ہے۔ ان کے مطابق آزادی ضبطِ نفس کی مشق ہے نہ کہ لامحدود اختیار۔ پروفیسر رضوی نے سوراج، کھادی، دیہی ترقی اور پنچایتی راج جیسے گاندھیائی تصورات کی موجودہ معنویت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ یہ نظریات آج بھی حکومتِ ہند کے پروگراموں جیسے ’’اسکل انڈیا‘‘ اور ’’میک ان انڈیا‘‘ میں فکری بنیاد کا درجہ رکھتے ہیں۔

گاندھیائی فکر اور فلسفہ معنویت سے بھرپور

پروگرام کے مہمان خصوصی جناب کے۔ ستیش نامبودیرپد نے جامعہ کو ایک سو پانچ سال مکمل کرنے پر مبارک باد دی اور اسے عظیم کامیابی بتایا خاص طور سے اس نے ہندوستانی تاریخ،جد وجہد آزادی اور ترقی میں نمایاں کردار ادا کیاہے۔یجر وید اور کالی داس کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے فطرت کے ساتھ زندگی اور فطرت کا حصہ ہونے پر توجہ مرکوز کی اور اسے بدقسمتی بتاکہ ”پندرہ ملین نامیات دنیا میں بستے ہیں یہ صرف انسان ہے جو اپنی روای اور دنیاوی آسائش کے لیے دنیا میں ب سے زیادہ تباہی پھیلاتاہے۔ کچھ سائنس دانوں کواندیشہ ہے کہ اس شرح کی تباہی و بربادی سے نسل انسانی بھی معدوم ہوجائے گی جیسے ڈائنا سور معدوم ہوگئے۔ایسی صورت حال میں گاندھیائی فکر اور فلسفہ معنویت سے بھرپور ہوجاتے ہیں جس میں ان کی پائے دار ترقی کا تصور بھی شامل ہے۔انہوں نے اسکالر سے کہاکہ فضول اور ضرورت سے زیادہ استعمال کی صورت حال کوتنقید ی نقطہ نظر سے دیکھیں اور گاندھی جی کے پیش کردہ ترقی اور مادیت کے تصورات کی روشنی میں جانچیں پرکھیں ’سب کی ضرورتوں کے لیے کافی کچھ ہے،ہاں کسی کی بھی لالچ اور حرص کے لیے بہت کم ہے۔‘

گاندھیائی فلسفہ اور عمل ہندوستانی تہذیب و فکر میں رچی بسی ہے

پروفیسر سنجیو کمار کے شرما نے بصیرت افروز گفتگو کی اور ڈربن جنوبی افریقہ میں گاندھی کے زمانہ قیام کی تصویر کھینچ کر رکھ دی جہاں انہوں نے فونیکس آشرم قائم کیا اور تعلیم وتہذیب سے متعلق اپنے نظریات وخیالات کو دریافت کیا۔یہ بتاتے ہوئے کہ گاندھیائی فلسفہ اور عمل ہندوستانی تہذیب و فکر میں رچی بسی ہے انہوں نے کہاکہ گاندھی ہمیشہ یہ مانتے تھے کہ نیا ہندوستان برطانیہ کی کاپی نہیں ہوگا‘۔پروفیسر شرما نے کہا کہ گاندھی نے ہمیشہ تنقید کو قبول کیا اور اپنے ناقدین کواپنے قریب رکھا جس سے ان کے انکسار اور کشادہ ظرفی کا اندازہ ہوتاہے۔انہوں نے مزید کہاکہ اظہار رائے اور تنقید کی آزادی ہندوستانی آئین سے ہی نہیں آتی بلکہ وہ ہندوستانی تہذیب و روایت کا ناقابل ینفک جزو ہے۔انہوں نے بتایا کہ گاندھی سے مہاتما بننے کا سفر طویل اور سخت کاوش اور مشکلات سے بھرا تھا۔انہوں نے اخیر میں کہاکہ تعلیم کا مقصد انسان کو عظیم بنانا ہونا چاہیے صرف اسناد کی فراہمی کا وسیلہ نہیں۔تعلیم کو بہترین شہری بنانے چاہئیں اور اچھے انسان بنانے چاہئیں۔ پروفیسر مظہر آصف، شیخ الجامعہ نے اپنے خطاب میں کہا کہ گاندھی سے ان کا رشتہ صرف فکری نہیں بلکہ تجرباتی ہے کیونکہ وہ اسی خطے سے تعلق رکھتے ہیں جہاں سے گاندھی جی نے ستیہ گرہ کا آغاز کیا تھا۔ انہوں نے طلبہ کو تلقین کی کہ وہ گاندھی کے اصولوں خصوصاً سچائی اور عدم تشدد کو اپنی زندگیوں میں شامل کریں۔

مہمانانِ خصوصی میں کے۔ ستیش نامبودیری پد، ڈائریکٹر جنرل دوردرشن، پروفیسر سنجیو کمار شرما، سابق وائس چانسلر مہاتما گاندھی سینٹرل یونیورسٹی موتیہاری، پروفیسر سنجیو کمار، دہلی یونیورسٹی اور دیگر ممتاز ماہرین شامل تھے۔ پروگرام کی صدارت شیخ الجامعہ، پروفیسر مظہر آصف نے کی جبکہ پروفیسر محمد مہتاب عالم رضوی (رجسٹرار، جامعہ)، پروفیسر نیلوفر افضل (ڈین اسٹوڈنٹس ویلفیئر) اور پروفیسر ابوذر خیری (ڈائریکٹرNMC-PCR) نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ ورکشاپ کی نظامت اور انعقاد کی ذمہ داری ڈاکٹر بینش مریم اور سدھانشو ترویدی نے مشترکہ طور پر انجام دی۔ورکشاپ کا اختتام ڈاکٹر بینش مریم کے شکریہ کے کلمات اور قومی ترانے کی نغمہ سرائی کے ساتھ ہوا۔