یاسمین الدباغ :ٹوکیو میں سعودی کی پرچم بردار

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 27-07-2021
خاتون پرچم بردار
خاتون پرچم بردار

 

 

ٹوکیو: ایک وقت یہ ناقابل یقین بلکہ ناقابل تصور تھا کہ سعودی عرب کے کسی اسپورٹس دستے کو دنیا کے کسی بھی میدان میں کوئی خاتون لیڈ یا قیادت کرے گی۔ لیکن یہ بدلتا ہوا سعودی عرب ہے۔جہاں سب کچھ بدل رہا ہے۔ بند دروازے کھل رہے ہیں اور جنہیں فضا میں اڑنے کی خواہش اورحوصلہ ہے وہ آزاد ہیں ۔وہ خواہ مرد ہوں یا خاتون۔اب کسی کے لیے نہیں ہے کوئی بندش۔

 یہی وجہ ہے کہ یاسمین الدباغ جنہیں چند ہفتے قبل تک کوئی جانتا نہیں تھا حالانکہ بڑے خوابوں کے ساتھ تیز دوڑنے والی سعودی خاتون کا ایک خواب تھا کہ اولمپکس میں پرچم لہرائیں ۔

awazurdu

 ٹوکیو اولمپکس 2020 کی افتتاحی تقریب میں پوری دنیا کو انہیںدیکھنے کا موقع ملا جب انہوں نے سعودی کشتی راں حسین علی رضا کے ساتھ مملکت کا پرچم بلند کرنے کا اعزاز حاصل کیا۔

۔ تیئیس سالہ یاسمین الدباغ کا سعودی عرب کے اولمپک وفد میں اپنے ملک کی نمائندگی کرنا بہت بڑا اعزاز ہے۔

میرے لیے یہ بات بے حد اہمیت کی حامل ہے کہ میں ایک ایسی بیش قیمت ٹیم کا حصہ ہوں جس میں بہت سے مختلف کھیلوں کی نمائندگی کی جارہی ہے۔

 اس وفد میں جوڈو سے لے کر ٹیبل ٹینس، کشتی رانی، کراٹے، تیر اندازی، ویٹ لفٹنگ، تیراکی، شوٹنگ اور فٹ بال کے کھیل شامل ہیں۔

 واضح رہے کہ سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے وژن 2030 کی بدولت سعودی عرب میں کھیلوں کے شعبے میں غیر معمولی ترقی دیکھنے میں آئی ہے۔

 یاسمین نے مزید کہا کہ سعودی ایتھلیٹس کی حیثیت سے ہم سب کو کھیل کے میدان میں اپنے ملک کی ترقی میں اہم کردار پر فخر ہے۔ ہمارے پاس کھیلوں کے لیے ایک زبردست ماحول موجود ہے جو ہمیں اعلی سطح پر پرفارم کرنے کا موقع دیتا ہے۔ واضح رہے یاسمین الدباغ 30 جولائی بروز جمعہ ٹوکیو اولمپک سٹیڈیم میں 100 میٹر کی دوڑ سے اپنا ڈیبیو کریں گی۔

 یاسمین الدباغ کہنا ہےکہ مجھے بچپن ہی سے کھیلوں کا شوق رہا ہے۔ جب میں جدہ کے سکول کی طالبہ تھی، مجھے باسکٹ بال، تیراکی، والی بال اور جمناسٹک جیسے ہر کھیل میں دلچسپی تھی۔ ٹریک اینڈ فیلڈ کی میرے دل میں غیر معمولی جگہ ہے۔ ہمیشہ میرے قدموں کی آواز مجھےبااختیار، مضبوط اور خوداعتماد ہونے کا احساس دلاتی۔

انفرادی کھلاڑی کی حیثیت سے، میں اس بات پر یقین رکھتی ہوں کہ آپ جو بوتے ہیں وہی کاٹتے ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ پہلے کھیلوں کی سہولیات تک رسائی تھوڑی مشکل تھی خاص طور پر خواتین ایتھلیٹس کے لئے مگر اب سعودی عرب میں خواتین کے کھیلوں سمیت تمام کھیلوں میں بڑے پیمانے پر مواقع میسر ہیں یاسمین نے کہا میں ذاتی طور پر جن احباب کی شکرگزار ہوں ان میں خصوصی طور پرشہزادہ عبدالعزیز بن ترکی الفیصل، وزارت کھیل، سعودی عرب اولمپک کمیٹی اور ایتھلیٹکس فیڈریشن شامل ہیں۔

انہوں نے مزید بتایا کہ ایسے وقت جب خواتین کی کھیلوں میں شمولیت کو ثقافتی طور پر زیادہ قابل قبول نہیں کیا جاتا تھا انہیں خوش قسمتی سے ایسی فیملی ملی جس نے ان کی قابلیت پر یقین کیا اور انہیں سپورٹ کیا۔ الدباغ نے کہا کہ میرا خاندان میرا سب سے بڑا حامی تھا اور ہے اور اس نے ہمیشہ مجھے اپنے خوابوں کو پورا کرنے پر زور دیا ہے۔