سید اختر علی ۔ ایسا کہاں سے لاؤں کہ تجھ سا کہیں جسے

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 11-02-2021
ہندوستانی ٹینس کی شان تھے اختر علی
ہندوستانی ٹینس کی شان تھے اختر علی

 

ظفر علی خان۔ کولکتہ

لیجئے! سٹی آف جوائے کو ایک بڑا صدمہ برداشت کرنا پڑا۔ہندوستانی ٹینس میں استادوں کے استاد سید اختر علی نہیں ہے۔پہلے ایک کھلاڑی کی حیثیت سے اور پھر ایک کوچ کے کردار میں اختر علی نے ہندوستانی ٹینس کو اتنا کچھ دیا ہے کہ تا قیامت ہندوستانی ٹینس ان کی مقروض رہے گی۔ایک سادہ طبیعت انسان جنہوں نے ڈیوس کپ سے ہندوستا ن کا پرچم لہرانا شروع کیا تھا اور جب تک کھیلتے رہے ملک کی جھولی ٹرافیوں اور کپ سے بھرتے رہے۔ ایک اسٹار کی حیثیت سے ہندوستانی ٹینس کو عروج بخشا تو ایک کوچ کی حیثیت سے ملک کو اتنے ستاروں کا مالک بنا دیا کہ ہندوستانی ٹینس جھلملا اٹھی۔7فروری کو ان کے انتقال نے کولکتہ میں ماتم کا سماں کردیا ۔ اسپورٹس کی برادری غم میں ڈوب گئی تھی۔ہر کسی نے اس کو ناقابل تلافی نقصان قرار دیا۔

اختر شناس کوچ سیّداختر علی نے اپنا گھر کیا خالی کیا کہ انہوں نے ٹینس کے دارالسلطنت قرار دئیے جانے والے شہر کلکتہ کو ہی ویران کردیا۔ان کے رخصت ہوتے ہی ایشیا کا ومبلڈن قرار دئیے جانے والا کلکتہ ساؤتھ کلب کا سبز فرش زردی مائل ہو گیا۔ایک ایسا کلب جس نے ہندستانی ٹینس کو ایسے ایسے انمول رتن دئیے جن کی کرنیں آج بھی ہمارے افتخار اور اعتماد کا درجہ دنیائے ٹینس میں منّور کئے ہوئے ہیں۔وہ کلب آج خاموش ہے جہاں سیّداختر علی ایک ایسی کڑی تھے جن کا رابطہ ہندستان کے پہلے پیشہ ور کھلاڑی دلیپ بوس سے لے کر سات بار اولپکس میں ہندستان کی نمائندگی کرنے والے لیانڈر پیزتک برقرار رہا۔

دلیپ بوس سے ٹینس کی ابجد سیکھی اور پھر اسے لینڈر پیز تک منتقل کرکے داد تحسین حاصل کی۔ہندستان کے سابق ڈیوس کپ کھلاڑی سیّداختر علی ایک فرض شناس اور اختر شناس کوچ تھے جو ابھرتے ہوئے کھلاڑیوں کی صلاحیتوں کو نکھارنے کے ساتھ ساتھ ٹینس سرکٹ پر ان کے فاتحانہ سفر کی بھی پیش گوئی صحیح خطوط پر کرتے تھے اور اکثر موقعوں پے ان کی پیش گوئی درست ثابت ہوئی۔

AKHTER

 مرحوم سید اخترعلی اپنی  ایک شاگردہ ثانیہ مرزا کے ساتھ

بہترین کھلاڑی اور بہترین کوچ

کوچ و کھلاڑی دونوں طور پر سیّداختر علی کامیاب رہے۔جس کے ساتھ سید اختر نے ٹینس کورٹ پر حریف بن کر مقابلہ کیا، اسی کھلاڑی کی تربیت بھی انہوں نے کی۔ سابق ڈیوس کپ کھلاڑی جے دیپ مکھرجی کے ساتھ انہوں نے کئی میچوں میں شانہ بہ شانہ حصہ لیا لیکن چند عرصہ بعد ہی سید اختر علی جے دیپ کے کوچ بن گئے۔ جئےدیپ کے مطابق سیّداختر علی کھلاڑی سے زیادہ کوچ کی حیثیت سے جانے جائیں گے۔1966 میں ڈیوس کپ کے ایک مقابلہ کا ذکر کرتے ہوئے جئے دیپ نے کہا کہ یہ سیّداختر علی کا ہی مشورہ تھا کہ ڈبلز میں راماناتھن کرشنن میرے ساتھ کھیلے اور اس کے بعد جو تاریخ لکھی گئی۔دراصل اختر علی نے صرف سولہ سال کی عمر میں جونیر نیشنل چیمپئین بننے کا اعزاز حاصل کیا تھا۔جبکہ اس کے بعد ان کا سفر بلندی تک جاری رہا۔ ایک

کوچ کی حیثیت سے انہوں نے تین نسلوں کو تیار کیا جن میں لینڈر پیس اور رمیش کرشنن اور وجے امرت راج شامل ہیں۔ 1958 1964 کے دوران سید اختر علی نے ڈیوس کپ میں ہندستان کی نمائندگی کی اور کوچنگ میں بھی اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ ان کی کوچنگ سے متاثر ہوکر بلجیم کی قومی فیڈریشن نے اختر علی کی 1980 سے 1984 تک اپنی قومی ٹیم کا کوچ مقرر کیا۔ اس کے علاوہ سید اختر علی نے ملیشیا کی قومی ٹیم کو 1968 سے 1970 تک تربیت دی۔ وجئے امرت راج، رمیش کرشنن، لیانڈر پیز، سوم دیو برمن سمیت بنگال کی کوچنگ کی۔ وجئے امرت راج کے خلاف سید اختر علی 1974 میں کھیلے گئے ایک اے ٹی پی ٹورنامنٹ میں مقابلہ کیا اور پھر وجئے امرت راج کی کوچنگ بھی کی۔

جذبہ کی کہانی

آج یہ اختر شناس ابدی نیند سو رہا ہے۔اس مٹّی کے بوجھ تلے دبا ہو ہے جس مٹّی کو اپنے والد کی قبر پر دینے کے بعد انہوں نے اپنے ٹینس کیرئر کا ایک اہم مرحلہ شروع کیا تھا۔قبرستان سے قبرستان تک یہ مرحلہ واقعی سبق آموز ہےٍ۔بلند اختر مرحوم ٹینس کوچ سید اختر علی کے کھیل سے شروعاتی ایّام کے آغاز کا تذکرہ خود انہوں نے اپنے ایک انٹرویو کے دوران کیا تھا۔یہ غالباً 1960 کی دہائی کا شروعاتی دور تھا جب آرڈیننس کلب میں کھیلے جانے والے ٹینس ٹورنامنٹ کے فائنل کے دن اچانک ان کے والد اپنے مالک حقیقی سے جا ملے۔ اس دن سیّداختر علی کا فائنل میں مقابلہ ایک طاقتور حریف سے تھا لیکن اپنے والد کی موت کے سبب وہ اس فائنل میں کھیلنے سے قاصر تھے۔ والد کی موت صبح کے وقت ہوئی تھی اور اسی وقت ان کا فائنل میں مقابلہ تھا۔ یہ فائنل مقابلہ کئی معنوں میں اہمیت کا حامل تھا کیونکہ فائنل جیتنے والے کھلاڑی کو ڈیوس کپ کی ہندستانی ٹیم میں جگہ ملنا طے تھی۔ چند بااثر ٹینس عہدیداروں کی مدد سے فائنل مقابلہ کا وقت 3 بجے سہ پہر کردیا گیا تاکہ سیّداختر علی اس میں شرکت کرسکیں۔

بہرحال گوبرا قبرستان میں اپنے والد کی تدفین کے بعد سید اختر علی سیدھے آرڈی ننس گراؤنڈ پہنچے۔ کرتا پائجامہ پہنے ہوئے تھے۔ کسی طرح ایک ساتھی کھلاڑی کی مدد سے انہوں نے ٹی شرٹ اور نیکر کا انتظام کیا اور پھر ٹینس کورٹ پر ریکٹ تھام کر حاضر ہوگئے۔ اپنے حریف کو چاروں خانوں چت کردیا اور لگاتاردو سیٹ جیت کر انہوں نے اپنے والد کو تحفہ پیش کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے کیریئر کو چار چاند لگا دیئے۔

akhter ali

ہندوستان میں ٹینس نگہبان ۔ سید اختر علی اور صاحبزادے ذیشان علی   

بیٹے کو بھی دیا سبق

اگر وہ چاہتے تو اپنے فرزند کو اعلیٰ مقام دلانے میں اپنے اثر و رسوخ کا استعمال کرسکتے تھے لیکن اختر علی نے ذیشان علی کو جدوجہد کرنے کا سبق سکھایا جس کی بدولت آجسیّد ذیشان علی ہندستان کی ٹینس کی شان بڑھا رہے ہیں اور قومی ٹیم کے کوچ ہیں بلکہ اب ہندستان کی قومی ٹینس اکاڈمی کے بھی ہیڈ کوچ منتخب ہونے والے ہیں۔ سیّداختر علی کا دل انسانی خدمت کے جذبہ سے بھرا رہتا تھا، وہ کلکتہ یتیم خانہ کو مالی امداد فرہم کرانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے تھے۔

اتنے عرصہ تک ملک و ملّت کی خدمت کرنا ہمارے لئے باعث فخر ہے۔یہ 2005 کی بات ہے جب اختر علی نے اپنے کیریئرکے 50 سال پورے کئے تھے اور علی خاندان نے اس موقع پر کلکتہ کے ایک پانچ ستارہ ہوٹل میں پروگرام کا اہتمام کیا تھا جس میں ہندستان کی ٹینس پری ثانیہ مرزا نے بنفس نفیس شرکت کرکے اپنے کوچ کو زبردست خراج پیش کیا تھا۔ ثانیہ مرزا کا جن دنوں خراب فارم چل رہا تھا ان دنوں سیّد اختر علی نے ثانیہ مرزا کی مدد فرمائی۔ دراصل ثانیہ کے والد عمران مرزا ہمیشہ ہی اختر علی سے مشورے طلب کرتے تھے۔ دبئی اوپن میں کھیلنے سے قبل ثانیہ مرزا نیسیّد ذیشان علی کی تربیت میں دبئی میں اپنی خامیوں کو دور کیا اور وہاں پر کامیابی کے جھنڈے گاڑے۔ اپنے پہلے گرانڈ سلام ٹورنامنٹ سے قبل ثانیہ مرزا نے سید اختر علی سے مفید مشورے حاصل کئے اور وہاں آسٹریلیائی اوپن میں ثانیہ کے کھیل سے متاثر ہوکر سرینا ولیمس نے اس کے روشن مستقبل کی پیش گوئی کی تھی۔

گولڈن مین تھے اختر علی

ایک خلیق اور ملنسار شخص کے گزرنے کا درد راقم الحروف کو بھی ہے۔وہ میرے ساتھی کمنٹیٹر تھے۔ان کے ساتھ نشر نگار کی حیثیت سے ایک ہی بوتھ میں ٹینس کی کمنٹری کا شرف حاصل ہوا اور وہ اپنے ساتھی نشر نگاروں کے ساتھ بہت ہی شفقت سے پیش آتے تھے۔اکثر تکنیکی معاملوں میں وہ ناظرین و سامعین کے لئے نہایت ہی سلیس انداز میں کھیل کا ذکر کرتے تھے اور ہمیشہ اپنے ساتھی نشر نگاروں کا حوصلہ بڑھاتے تھے۔ سیّد اختر علی کے ساتھ کئی اہم ٹورنامنٹوں میں ایک ساتھ بیٹھنے کا موقع ملا اور میچ کے بعد وہ اکثر کورٹ پر جاکر کھلاڑیوں کو اُن کی غلطیوں کی نشاندہی کرتے تھے۔شفقت سے پیش آنا انہوں نے اپنے والد سے سیکھا تھا۔ہندستان میں چند ایک ایسے خاندان ہیں جو کہ ٹینس کی آبیاری کررہے ہیں۔ راما ناتھن کرشنن اور رمیش کرشنن یا امرت راج بھائیوں کا ذکر کیا جائے۔ وجئے امرت راج اور آنند امرت راج لیکن ایک خاندان علی خاندان بھی ہے جو کہ پچھلے 75-80 سال سے ٹینس کی خدمت کررہا ہے۔

AKHTER

سید اختر علی کا آخری سفر

کلکتہ ساؤتھ کلب کا سبز فرش اب پہلے جیسا نہیں رہے گا۔ ان تاثرات کا اظہار نشر نگاروں کی دنیا میں اس وقت کرکٹ کے معمر ترین کمنٹیٹر اشیش رے نے کیا۔ لندن سے اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے اشیش رے نے کہا کہ اختر علی ایک اختر شناس کوچ تھے جنہیں ابھرتے ہوئے کھلاڑیوں کی صلاحیتوں کو پرکھنے کا بخوبی علم تھا۔ بلاشبہ اس اختر شناسی میں ان کی دختر نیک نیلوفر علی کا نمایاں رول رہا ہے۔ اختر علی سن فیسٹ اسپانسر کے تحت ہر سال جونیئر ٹورنامنٹ کا اہتمام کرتے تھے اور اس اہتمام کی تمام تر ذمہ داری ان کی دختر نیلوفر انجام دیتی تھیں۔ انتظامی صلاحیتوں سے لبریز نیلوفر علی کے لئے آج ٹینس کی دنیا غروب ہوگئی لیکن ان کا عزم اپنے والد کے اس ٹینس کارواں کو آگے بڑھانے کی دعوت دے رہا ہے۔ کلکتہ ساؤتھ کلب کے صد سالہ جشن کے موقع پر ٹینس کے آفتاب و ماہتاب کی جھرمٹ میں سید اختر علی کی موجودگی نیلوفر اور ان کی والدہ کے لئے باعث افتخار تھی اور یہی وجہ ہے کہ نیلوفر اپنے مرحوم والد کے منصوبوں کو آگے بڑھانے کی کوشش کریں گی اور ملک و ملت کو مستقبل کے ستاروں سے روشناس کرائیں گی۔