'ممتاز' کو چاہیے خوابوں کا 'محل'

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 18-04-2022
'ممتاز' کو چاہیے خوابوں کا 'محل'
'ممتاز' کو چاہیے خوابوں کا 'محل'

 

 

ایم مشرا: لکھنؤ

میں چھ سال سے اپنے ملک کے لیے ہاکی کھیل رہی ہوں اور مجھے بہت پیار اور عزت ملی ہے۔ آج نہیں تو کل مجھے بھی نوکری مل جائے گی، لیکن اگر مجھے صرف ایک 'آشیانہ' مل جائے تو میں محسوس کروں گی کہ میں اپنے خاندان کے لیے کچھ کر سکی ہوں۔

یہ الفاظ ہیں جونیر ہاکی ورلڈ کپ میں آٹھ گول کرنے والی ممتاز خان کے ۔جو اب وطن واپس آگئی ہیں۔ ایر پورٹ پر ان کا شاندار استقبال بھی ہوا مگر ممتاز خان ہندوستانی ہاکی کی نئی امید بننے کے باوجود کہیں نہ کہیں مایوسی کا شکار ہیں،انہیں اب تلاش ہے ایک آشیانہ کی۔ سر چھپانے کے لیے ایک معقول گھر کی۔ایک ایسا گھر جو ان کے اہل خاندان کے خوابوں کا محل ہو۔ ایک کمرے میں زندگی گزارنے والے خاندان کو ممتاز خان کی کامیابی کے ساتھ اس بات کی امید ہے کہ حکومت انہیں ایک گھر کا تحفہ دے گی۔اپنی اس خواہش کا اظہار کرتے ہوئے ممتاز خان کی آواز بھرا گئی تھی۔

ان کا کہنا ہے کہ حکومت سے درخواست ہے کہ ہمارے لیے گھر کا بندوبست کیا جائے۔ میرا خاندان بڑا ہے اور ایک چھوٹے سے کمرے میں مقیم ہے۔ اب جب کہ ہم بڑے ہو چکے ہیں، یہ مشکل ہے۔ ایک کمرے میں ایڈجسٹ کرنا۔ میرے والد کی مالی حالت اتنی اچھی نہیں کہ وہ اپنا گھر خریدیں۔ اس لیے میری طرف سے خصوصی درخواست ہے۔حکومت میرے اور میرے خاندان کے لیے گھر کا بندوبست کرے۔

awazurdu

 جونیئر ورلڈ میں کھیلنے کے بعد واپس لوٹنے والی لکھنؤ کی بیٹی بہت خوش تھی لیکن اپنی اس خواہش کا ذکر کرتے ہوئے اس کی آنکھیں نم ہوجاتی ہیں ۔

مزید پڑھیں: ممتازخان : سبزی فروش کی بیٹی کیسے بنی ہندوستانی ہاکی کا روشن چہرہ

ممتاز کہتی ہیں کہ جونیئر انڈیا کیمپ میں پہلے سلیکشن تک میرے گھر کی مالی حالت بہت خراب تھی۔ اس کا اپنا کوئی گھر نہیں تھا۔ میں اپنے ماموں کے گھر رہتی ہوں۔ مگراس مشکل ماحول میں امّی، ابا اور بہنوں نے انہیں ہاکی کھیلنے کی ترغیب دی۔

وہ کہتی ہیں کہ آج اگر میں اہل خاندان کے لیے گھر کا بندوبست کر سکتی ہوں تو میرے لیے اس سے بڑی کوئی چیز نہیں ہوگی۔

 ممتاز بتاتی ہیں کہ جب سے لکھنؤ واپس آئی ہوں، مجھ سے ملاقات کرنے والے لوگوں کا تانتا بندھا ہوا ہے۔

سب میری مدد کرنے کو کہہ کر چلے گئے، لیکن میں صرف اپنے گھر والوں کے لیے گھر بنانے کا خواب دیکھتی ہوں۔ پتہ نہیں یہ خواب کب پورا ہو گا۔

 ممتاز بتاتی ہیں کہ یوتھ اولمپکس، جونیئر ورلڈ کپ سمیت 15 انٹرنیشنل ٹورنامنٹس میں کھیل کر ان کے کھیل میں کافی تبدیلی آئی ہے۔ جونیئر ورلڈ کے سیمی فائنل میں پہنچنے کے بعد میڈل سے محروم ہونا بہت افسوسناک ہے۔

دراصل انگلینڈ کی ٹیم نے اہم مواقع پر بہتر کھیل کا مظاہرہ کیا۔ پورے ٹورنامنٹ میں خواتین کی سینئر ٹیم کی رانی رامپال، سویتا اور وندنا دیدی مجھے حوصلہ دینے کے لیے فون کرتی رہیں۔ میں نے ہالینڈ کے خلاف سیمی فائنل کے علاوہ ہر میچ میں گول کیا۔ اب میرا خواب پیرس اولمپکس میں ملک کی سینئر ویمنز ٹیم کے لیے کھیل کر تمغہ جیتنا ہے۔ امید ہے مجھے سینئر ٹیم میں موقع ملے گا۔

مزید پڑھیں : ماں کی نظر میں سو بیٹوں پر بھاری ہے ہندوستانی ہاکی کی ’’ممتاز‘‘۔

 ممتاز بتاتی ہیں کہ یہ انگلینڈ کے خلاف برونز کے تمغے کے مقابلے سے پہلے کی بات ہے جب ہاکی انڈیا کے سربراہ نریندر بترا کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی کے لیے آئے تھے۔ انہوں نے آکر کہا بیٹا تم نے کمال کیا ہے مجھے تم پر فخر ہے۔ انگلینڈ کے خلاف یہ بہت اہم میچ ہے اور آپ کو دو گول کرنے ہوں گے۔

میرے لیے یہ الفاظ ایک قوت بنے ۔ میں نے انگلینڈ کے خلاف پوری قوت سے کھیلا اور دو گول کیے لیکن ٹیم کو جتوانے میں کامیاب نہ ہو سکی۔ بترا صاحب نے بھی مجھے لکھنؤ آنے اور ان سے ملنے کو کہا ہے۔