سلیم کمار: ووشو مارشل آرٹ کا کشمیری اسٹار

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 25-01-2021
سلیم کمار
سلیم کمار

 

افضل بٹ/ سری نگر

وسطی کشمیر میں ضلع بڈگام کے سویہ بگ علاقے کے ایک غریب گھرانے سے تعلق رکھنے والے سلیم کمار کم سنی میں ہی ووشو نامی مارشل آرٹ میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا ملک و بیرون ملک منوا چکے ہیں۔انیس سالہ سلیم کمار نے اب تک ووشو میں قومی سطح پر سونے کے 7 تمغے حاصل کیے ہیں اور بین الاقوامی سطح پر بھی مقابلوں میں حصہ لے کر چاندی کا تمغہ حاصل کیا ہے۔سلیم کمار کے والد حبیب اللہ کمار کانگڑیاں (کشمیر میں جن کا استعمال سردی کے موسم میں گرمی کے لیے کیا جاتا ہے) بنا کر اپنے عیال کی پرورش کرتے ہیں اور والدہ حلیمہ بانو گھر کے امور ہی سنبھالتی ہیں۔ ان کا ایک بڑا بھائی اور ایک بڑی بہن بھی ہیں۔اس نوجوان ووشو کھلاڑی کا کہنا ہے کہ انہوں نے تمل ناڈو میں اُس وقت ووشو کے مقابلے میں حصہ لیا تھا جب وہ خود اچھی طرح چل پھر بھی نہیں سکتے تھے۔

 انہوں نے ’ آواز دی وائس اردو' کے ساتھ  ووشو کھیلنے کا شوق پیدا ہونے کے بارے میں گفتگو میں کہا 'بچپن میں ٹیلی وژن پر کھلاڑیوں کو ووشو کھیلتے ہوئے دیکھ کر مجھ میں بھی یہ کھیل کھیلنے کا شوق پیدا ہوا۔'میں نے تمل ناڈو میں سال2010 میں اُس وقت پہلے ووشو مقابلے میں حصہ لیا جب میری عمر کافی کم تھی اتنی کم کہ میں خود اچھی طرح سے چل پھر نہیں سکتا تھا۔ وہاں استاد (کوچ) مجھے گود میں اٹھا کر ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جاتے تھے۔

سلیم کمار کہتے ہیں: 'کم عمری سے ہی میں نے ووشو کھیلنا شروع کیا ہے، اب تک میں نے قومی سطح پر سونے کے سات تمغے حاصل کیے ہیں، میں نے برازیل میں ورلڈ جونیئر چمپئن شپ میں بھی حصہ لیا ہے اور چاندی کا تمغہ حاصل کیا ہے اور چین میں ایک بیس روزہ کیمپ میں بھی شرکت کی ہے۔''مجھے مراکش میں منعقد ہونے والی ایشین چمپئن شپ میں بھی حصہ لینا تھا جو ماہ نومبر میں ہونے والی تھی۔ لیکن کورونا کی وجہ سے یہ چمپئن شپ معطل کی گئی۔'نثار احمد میر نامی ایک مقامی مارشل آرٹ کوچ سلیم کے استاد ہی نہیں بلکہ ہمدرد و خیر خواہ بھی ہیں اور انہیں ووشو کے میدان میں اپنی صلاحیتوں کو نکھارنے اور دکھانے کے محرک بھی ہیں۔'نثار سر (نثار احمد میر) ایک مقامی استاد (کوچ) ہیں جنہوں نے میری صلاحیتوں کو دیکھ کر مجھے اس میدان میں لایا اور وہ مجھے آگے بڑھنے کی مسلسل حوصلہ افزائی کر رہے ہیں، وہ میری ہر ممکن مدد کرتے ہیں یہاں تک کہ کھیلنے کے لیے جانے کے میرے اخراجات بھی بسا اوقات اپنی  جیب سے پورا کرتے ہیں۔'

اپنے گھریلو حالات کے بارے میں بات کرتے ہوئے اس نوجوان ووشو کھلاڑی کا کہنا ہے: 'میرے گھریلو معاشی حالات ٹھیک نہیں ہیں، میرے والد کانگڑیاں بناتے ہیں جس سے گھر کا گذارہ مشکل سے ہوتا ہے اور میری والدہ گھریلو کام کرتی ہیں۔'میرا ایک بھائی اور ایک بہن بھی ہیں جو دونوں مجھ سے بڑے ہیں گھریلو سختی کے باعث میرے بڑے بھائی کو تعلیم ادھوری چھوڑنی پڑی اور وہ والد کا ہاتھ بٹا رہے ہیں تاہم میری بہن ابھی بھی پڑھ رہی ہیں اور انہوں نے حال ہی میں گریجویشن کی ڈگری مکمل کی ہے۔

'میرے گھر والے خود سختی برداشت کر رہے ہیں لیکن میری مدد کے لیے ہر وقت تیار رہتے ہیں۔'سلیم کمار اس وقت گورنمنٹ ہائر اسکینڈری اسکول سویہ بگ میں بارہویں جماعت میں زیر تعلیم ہیں اور ووشو مارشل آرٹ سوسائٹی سویہ بگ کے ساتھ وابستہ ہیں۔کہتے ہیں: 'ہر کھلاڑی کو اپنے سفر میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ محنت کے بعد ہی کامیابی نصیب ہوتی ہے۔''شوق ہو تو مشکل سے مشکل حالات کو بھی سر کیا جا سکتا ہے