سائرعبد الله - ایک بازو سے محروم مگراسپورٹ ڈرائیونگ کا جنون

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 25-03-2021
سائر عبد الله
سائر عبد الله

 

 

سری نگر

ستمبر 2007 کا وہ بعد قسمت دن جب اسکول کے بچوں کو لے جا رہی بس حادثے کا شکار ہو گئی ۔ ڈرائیور کی سیٹ کے پاس بیٹھے ہوئے اننت ناگ کے رہائشی سائر عبد الله نے جب اپنی آنکھ کھولی تو اپنے آپ کو اسپتال میں پایا ۔ اس کے فکر مند والدین اسے دلاسہ دے رہے تھے لیکن وہ صدمے سے باہر نہیں نکل پا رہا تھا ۔

ہوا کچھ یوں کہ بس کا بریک فیل ہو گیا۔ بس ایک چٹان سے جا ٹکرائی اور پلٹ گئی ۔ سائر کا ایک ہم جماعت موقع پر ہی ہلاک ہو گیا، جبکہ سائر کو سری نگر کے ایک معروف اسپتال میں ریفر کر دیا گیا۔ طبیعت بگڑنے کے بعد اسے شیر کشمیر انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز میں داخل کر دیا گیا- وہاں ڈاکٹر اس کشمکش میں تھے کہ جان بچانے کے لئے اس کے داہنے بازو کو کاٹ کر الگ کیا جائے یا نہیں ۔ معصوم سائر عبد الله ڈاکٹروں کے متفقہ فیصلے اور اپنے والدین کی ذہنی تکلیف سے انجان تھے۔

سائر عبد الله کہتے ہیں کہ جب مجھے ہوش آیا تو میں نے پایا کہ میرا دایاں بازو کٹ کر الگ ہو چکا ہے۔وہ بتاتے ہیں کہ میں نے اپنے والدین سے کہا کہ گھبرانے کی کوئی بات نہیں، میں زندگی کو اسی طرح قبول کر چکا ہوں ۔ لیکن معصوم سائر عبد الله کے وجود کے اندر معذور افراد کی تکالیف کی پوری تصویر گھومتی رہتی تھی تھی۔ وقفے وقفے سے ان کے ذہن میں سڑک کنارے بیٹھے معذور بھکاریوں اور سماج میں معذور افراد کو ہونے والی تکالیف کی تصاویر رقص کرتی رہتی تھیں۔

سائر کہتے ہیں کہ مجھے اس وقت لگنے لگا تھا کہ میری آئندہ کی پوری زندگی تو اب ایک معذور کی حیثیت سے کمرے کی چہار دیواری میں ہی گزرے گی۔ لیکن میرے والدین اور دوستوں کی حوصلہ افزائی نے مجھے کبھی محسوس ہی نہیں ہونے دیا کہ میرا بازو نہیں ہے۔ والدین اور دوستوں کی حوصلہ افزائی نے سائر کو ترغیب دی کہ وہ اپنا برسوں پرانا شوق پورا کرے اور ڈرائیونگ کی دنیا میں قدم رکھے ۔ اس جنون نے سائر کو اتنا ماہر بنا دیا کہ وہ ان دشوار گزر سڑکوں پر تیز رفتاری کے ساتھ ڈرائیونگ کرتے ہیں جہاں ریگولر ڈرائیور بھی جانے سے گریز کرتے ہیں۔

سائر کہتے ہیں کہ بچپن سے ہی میرے اندر ڈرائیونگ کا جنون تھا، لیکن حادثے کے بعد کچھ دیر کے لئے تو مجھے لگا کہ میں اب کبھی چار پہیوں والی گاڑی نہیں چلا پاؤں گا ۔ لیکن اب لوگوں کی ترغیب اور میری محنت کا نتیجہ یہ نکلا کہ آج میں ایک منجھا ہوا ڈرائیور ہوں اور ایک موٹر اسپورٹ کلب جس کا نام کشمیر آف روڈ ہے، کا سرکردہ ممبر ہوں ۔ سائر اپنے دوستوں اور والدین کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ میری کامیابی ان کی ترغیب اور تعاون کی مرہون منت ہے ۔

سائر بتاتے ہیں کہ وہ جب بستر پر پڑے صحت مند ہونے کا انتظار کر رہے تھے تو میرے والد صاحب نے انہیں ایک پنسل اور کاغذ دیا اور الفاظ کو لکھنے کی مشق کرائی ۔ چونکہ سائر داہنے ہاتھ سے لکھنے کے عادی تھے اس لئے انہیں کافی مشقت کرنی پڑی ۔ اپنے ذہنی اضطراب کا ذکر کرتے ہوئے سائر کہتے ہیں کہ یہ مرحلہ میرے لئے کافی تکلیف دہ تھا، کیوں کہ مجھے اپنے ذہن کو ری ڈیزائن کرنا پڑ رہا تھا ۔ وقت کے ساتھ ساتھ سائر نے ٹائی باندھنا ، جوتے کے تسمیں باندھنا، کپڑے پہنا، نہانا، کنگھا کرنا، لکھنا، کھانا، کھیلنا اور دوسری سرگرمیاں سیکھ لیں ۔

سائر کہتے ہیں کہ ان کے والدین نے انہیں کھانا بنانا بھی سکھایا کیونکہ وہ مجھے اعلیٰ تعلیم کے لئے باہر بھیجنا چاہتے تھے ۔ واضح رہے کہ سائر قانون کی تعلیم کے ملک کے معروف ترین ادارے نالسر سے ایل ایل ایم کا کورس کر رہے ہیں۔ ڈرایونگ لائسنس ملنے کی کہانی سائر بتاتے ہیں کہ اٹھارہ سال کی عمر میں انہوں نے ڈرایونگ سیکھ کر لائسنس حاصل کر لیا تھا ۔ سائر اعتراف کرتے ہیں کہ انہوں نے اپنے معذور ہونے اور مصنوعی ہاتھ کی بات افسران سے مخفی رکھی۔

سائر کہتے ہیں کہ انہیں میٹل کے روڈ پر ڈرایونگ کرنے میں مزہ نہیں آتا تھا ۔ ان کا خواب تو روایتی ڈرایونگ سے ہٹ کر پہاڑوں اور پہاڑی چشموں، سنگلاک علاقوں اور جنگل کو عبور کرنا تھا ۔ وہ کہتے ہیں کہ میں بڑی کاروں جیسے ایس یو ویز اور ٹاٹا سفاری کو ہی چلاتا ہوں ۔ یہ سب اگلی موو کو کیلکولیٹ کرنے کا کھیل ہے ۔ میرا ذہن اسٹیرنگ کو ہاتھ لگانے سے پہلے ہی کیلکولیٹ کرنا شروع کر دیتا ہے ۔ بچپن سے ہی سائر کو روڈ ریلیز کا شوق تھا- انہوں نے اس لے لئے کشمیر آف روڈ نام کے موٹر کلب کو جائن کیا اور اس کی ممبر شپ لی ۔

پہلے تو سائر نے انہیں اپنے مصنوعی ہاتھوں کے بارے میں کچھ نہیں بتایا اور ان صلاحیت کو دیکھ کر کلب نے انہیں ممبر شپ دے دی۔ وہ کہتے ہیں کہ جب میں کار لے کر سڑکوں پر اترا تو مجھے اپنے آپ پر یقین نہیں ہو رہا تھا۔ اپنے تاثرات کو بتاتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ یہ میرے لئے باالکل نیا تجربہ تھا ۔ سائر توسا میدان، بتخصر اور باںگوس ویلی جیسی جگہوں پر ڈرایونگ کرتے ہیں۔ سائرکہتے ہیں کہ وہ ہندوستان کے علاوہ بیرون ملک بھی موٹر اسپورٹس میں حصہ لینا چاہتے ہیں ۔