ٹوکیو اولمپکس: پاکسان کو پاکستانیوں نے دھوکہ دیا

Story by  ایم فریدی | Posted by  Shah Imran Hasan | Date 30-07-2021
  پاکسان  کو  پاکستانیوں  دھوکہ  دیا
پاکسان کو پاکستانیوں دھوکہ دیا

 

 

 

اسلام آباد:  جانے کیوں ہم ہر 4 چار سال بعد خود کو عالمی سطح پر ذلت کا شکار کرتے ہیں اور مسابقتی کھیلوں اور اپنے کھلاڑیوں کے حوالے سے ناقابلِ فہم غفلت کا مظاہرہ کرتے ہیں؟

ٹوکیو میں منعقدہ 2020ء کے اولمپک کھیلوں کے لیے پاکستان کے 13 کروڑ 80 لاکھ بالغ افراد میں سے صرف 10 لوگوں کو بھیجنا مذاق نہیں بلکہ بہت بڑا دھوکا تھا۔

اس 10 رکنی دستے میں 7 مرد اور 3 خواتین شامل تھیں جنہیں ایتھلیٹکس، بیڈمنٹن، جوڈو، نشانہ بازی، تیراکی اور ویٹ لفٹنگ میں مقابلے کرنے تھے۔

ان کھلاڑیوں کے ساتھ اتنی ہی تعداد میں آفیشل بھی موجود تھے جو 2016ء کے ریو اولمپکس کے مقابلے میں ایک بہتری ہے۔ اس وقت تو 7 کھلاڑیوں کو 17 آفیشلز کا بوجھ اٹھانا پڑا تھا۔ 

سن 2020ء کے سمر اولمپکس کا آغاز جاپان میں وقت کی پابندی کے ساتھ صرف ایک سال کی تاخیر سے ہوا۔ جاپانی بادشاہ نوروہیتو نے افتتاحی تقریب کی صدارت کی۔ نوروہیتو اس وقت صرف 4 برس کے تھے جب ان کے دادا بادشاہ ہیروہیتو نے اسی شہر میں 1964ء اولمپکس کا افتتاح کیا تھا۔

اس  کے بعد میں ہونے ولے سمر اولمپکس کے مقابلے میں تو ان اولمپکس پر ہونے والے اخراجات کچھ بھی نہیں تھے۔ 2008ء کے بیجنگ اولمپکس پر 6 ارب 80 کروڑ ڈالر اخراجات آئے تھے اور 3 ارب ڈالر کا نیا ایئر پورٹ اس کے علاوہ تھا، 2012ء کے لندن اولمپکس پر 15 ارب ڈالر اخراجات آئے تھے، 2016ء کے ریو اولمپکس پر 13 ارب 70 کروڑ ڈالر خرچ ہوئے تھے اور 2020ء کے ٹوکیو اولمپکس پر 20 ارب ڈالر اخراجات آئے ہیں۔

انٹرنیشنل اولمپک کمیٹی (آئی او سی) کی جانب سے میزبان ممالک کو یہ باور کروایا جاتا ہے کہ یہ اخراجات بالکل جائز ہیں کیونکہ ان کے نتیجے میں روزگار کے نئے مواقع پیدا ہوتے ہیں۔

سیاحت میں اضافہ ہوتا ہے اور دیرپا انفرااسٹرکچر کی تعمیر ہوتی۔تاہم کورونا کی وجہ سے یہ سب فوائد دھرے رہ گئے ہیں۔

اکثر جاپانیوں کا خیال تھا کہ دوبارہ اولمپکس کی میزبانی کرنے کا کوئی جواز نہیں بنتا۔ تاہم ان کے تحفظات کے باوجود ٹوکیو کی شہری انتظامیہ اور اولمپک کمیٹی نے فیصلہ کیا کہ کورونا سے قطع نظر ان کھیلوں کا انعقاد کیا جائے گا۔

ان کھیلوں کے فاتحین تو سونے، چاندی اور کانسی کے تمغے اپنے ساتھ لے جائیں گےتا۔

ہم ٹوکیو کے شکست کھائے ہوئے ساڑھے 3 کروڑ شہری ان اخراجات کی قیمت اس وقت تک ادا کرتے رہیں گے جب تک نوروہیتو کا جانشین تخت پر نہیں بیٹھتا۔

افتتاحی تقریب بہت ڈرامائی انداز کی تھی۔ اس میں شریک افراد کو اس طرح پیش آنا تھا جیسے کہ 80 ہزار تماشائیوں کی گنجائش رکھنے والے اس نئے نیشنل اسٹیڈیم میں تماشائی واقعی موجود ہوں۔ پریڈ آف نیشنز میں شامل تمام 206 قومی ٹیموں کو خالی کرسیوں کی جانب ہاتھ ہلانے تھے۔

ان خالی کرسیوں کو چھپانے کے لیے کرسیوں کے اطراف اندھیرا کردیا گیا تھا۔ جاپانیوں نے سمجھداری کے ساتھ یہ فیصلہ کیا کہ وہ بیجنگ اولمپکس کی تقریب کا مقابلہ کرنے کے بجائے تقریب کو مختصر رکھیں گے۔

اس تقریب میں ایک کبوکی اداکار اور ایک پیانسٹ شامل تھا، آخر میں ماؤنٹ فُجی (جس طرح احرام مصر قدیم مصر کی علامت ہیں ویسے ہی یہ پہاڑ قدیم جاپان کی علامت ہے) کی بھی پیشکش شامل تھی جس میں سے ایک آتش فشاں کی طرح اولمپک کا الاؤ روشن ہوتا ہے۔

اگر پریڈ آف نیشنز اولمپک کھلاڑیوں کی بجائے جانوروں کا جلوس ہوتی تو یہ خدا کی مخلوق کی اس قطار کی طرح ہوتی جو حضرت نوح کے کشتی میں داخل ہوئی۔

خدا کی بنائی ہوئی ہر انسانی مخلوق بنی نوع انسان کی طرح داخل ہوئی۔ ان کھیلوں کے اختتام کے بعد یہ کھلاڑی اپنے وطن لوٹ جائیں گے اور ان کے ہم وطن ان کی کارکردگی کی تعریف کریں، ان کی کوتاہیوں پر پردہ ڈالیں گے اور ان کی کامیابی پر جشن منائیں گے۔

یہ تمام ہی پاکستانی دستے سے زیادہ خوش قسمت ہوں گے۔ جس دوران آئی او سی کے نمائندے باری باری اپنی ٹیموں کی حوصلہ افزائی کے لیے کھڑے ہوئے اس دوران نیم تاریک وی آئی پی حصے میں پاکستانی ٹیم کے نمائندے کہیں نظر نہیں آئے۔

لیکن حزیمت یہیں ختم نہیں ہوئی۔ 67 کلوگرام کیٹیگری میں ویٹ لفٹنگ کے مقابلے دیکھنے والوں کو یہ بھی دکھایا گیا کہ اس مقابلے میں شریک کھلاڑی کس طرح تیاری کر رہے ہیں۔

ہر کھلاڑی کے ساتھ ایک کوچ موجود تھا جو اس کا حوصلہ بڑھا رہا تھا اور وہاں مالیشیے بھی موجود تھے جو اپنی خدمات کے ذریعے بہتر ماحول فراہم کررہے تھے۔ تاہم طلحہ طالب کے ساتھ کوئی نہیں تھا۔

وہ ایک سادے سے کمبل میں لپٹا گجرانوالہ سے آئے کسی پناہ گزین کی طرح اکیلے بیٹھا تھا۔ اور پھر وہ اپنی پہلی کوشش کے لیے اٹھا۔

دیگر بھاری بھرکم کھلاڑیوں کے مقابلے میں طلحہ غذائیت اور تربیت کی کمی کے ساتھ ساتھ دباؤ کا شکار بھی نظر آرہا تھا۔ اسنیچ کے مرحلے پر وہ ناکام رہا اور زمین پر گر گیا، اور اسے طبّی امدا دینی پڑی۔ جاپانیوں نے کمال تدبر کے ساتھ اس کی اس حالت کو چھپانے کے لیے ایک عارضی آڑ لگادی۔

اپنی تیسری کوشش میں طلحہ نے 150 کلوگرام وزن اٹھایا (جو اس کے اپنے وزن سے دوگنا تھا)۔ کسی کو امید نہیں تھی کہ وہ اتنی بہتر کارکردگی دکھا سکتا ہے لیکن شاید خود طلحہ کو یہ امید تھی۔ کھیل کے کلین اینڈ جرک حصے میں طلحہ نے یہ ثابت کیا کہ اس کی صلاحیتیں صرف تربیت کا نتیجہ نہیں ہیں بلکہ یہ خدا کی طرف سے ملی ہوئی ہیں۔

طلحہ نے 170 کلوگرام وزن اٹھایا اور اس کے بعد سجدے میں گرگیا۔ اگر اس کی جانب سے اٹھائے گئے کل 320 گرام وزن کو اٹلی کے کھلاڑی کی جانب سے اٹھائے گئے 322 کلوگرام سے شکست نہ ہوتی تو طلحہ کو کانسی کا تمغہ مل سکتا تھا۔ طلحہ کی کوششوں کو دیکھ کر پاکستانیوں کو جس فخر کا احساس ہوا تھا وہ کچھ ہی دیر میں اس وقت کم ہوگیا جب طلحہ کے اٹینڈنٹ کی ادھار لی ہوئی قمیض پر نظر پڑی۔

اس قمیض پر پاکستان کی جگہ فلسطین لکھا ہوا تھا۔ اگر طلحہ واپس پاکستان آتا ہے (کیونکہ اس کے پاس اس ملک سے منہ موڑنے کا ہر جواز موجود ہے جو اپنے اولمپیئنز سے منہ موڑ لے) تو اس کا استقبال ایک ہیرو کی طرح کرنا چاہیے، بالکل ویسے ہی جیسے عمران خان اور ان کی ٹیم کا 1992ء کا ورلڈ کپ کی جیت کے بعد واپسی پر کیا گیا تھا۔

طلحہ ابھی صرف 21 سال کا ہے۔ اگر کھیلوں میں کامیابی ہی وزیرِاعظم بننے کا معیار ہے تو سلیکٹرز کو چاہیے کہ طلحہ طالب پر ابھی سے کام کرنا شروع کردیں۔