دوصدیوں کے سب سے مقبول شاعر مرزاغالب

Story by  غوث سیوانی | Posted by  [email protected] | 1 Years ago
دوصدیوں کے سب سے مقبول شاعر مرزاغالب
دوصدیوں کے سب سے مقبول شاعر مرزاغالب

 

 

مرزاغالب کے یوم ولادت پرخاص پیشکش

غوث سیوانی،نئی دہلی

ہوگا کوئی ایسا بھی کہ غالب کو نہ جانے

شاعر تو وہ اچھا ہے پہ بدنام بہت ہے

آج اگر کسی شاعر کو سب سے زیادہ پڑھاجاتا ہے، جس کی زندگی اور شاعری پر سب سے زیادہ بحثیں ہوتی ہیں، جو یونیورسٹیوں کی کلاس رومس سے لے کر سوشل میڈیا تک چرچا کا موضوع ہوتا ہے ،وہ مرزا اسد اللہ خاں غالبؔ ہے۔ شعر فہم غالبؔ کا مطالعہ کرتے ہیں اور سر دھنتے ہیں مگر جو شعر وسخن کی سمجھ نہیں رکھتے وہ بھی غالب کو سمجھنے کی کوشش کرتے دکھتے ہیں۔ دنیا کا کوئی ایسا کالج نہیں جس میں اردو کا شعبہ ہواور غالب کو نہ پڑھایا جاتا ہو۔ سب سے زیادہ ادبی سیمینار اور کانفرنسیں بھی انہیں کے فن پر ہوتی ہیں۔ غالبؔ اردو زبان کے ایسے شاعر بھی ہیں جن کی زندگی اور فن پر سب سے زیادہ کتابیں لکھی گئیں، مضامین تحریر کئے گئے، جن کی شخصیت پر سب سے زیادہ فلمیں بنی ہیں، ٹی وی شو بنے ہیں،سب سے زیادہ ڈرامے اسٹیج ہوئے ہیں اور ان کی غزلیں سب سے زیادہ گلوکاروں نے گائی ہیں۔

awaz

 غالب کی غزلیں تب بھی گائی جاتی تھیں جب گانوں کی رکارڈنگ عام نہیں تھی اورآج جب فنون لطیفہ کے لئے یوٹیوب اور دوسرے سماجی پلیٹ فارم  موجود ہیں تب بھی ان کی غزلیں نئے رکارڈ بنا رہی ہیں۔  مرزا جیتے جی سرکاری پنشن پر گزارہ کرتے رہے اور اس کے لئے بھی انہیں ایک طویل قانونی جنگ لڑنی پڑی۔ آج اگر وہ موجود ہوتے اور صرف اپنی شاعری کی کاپی رائٹ کی کمائی کھاتے تب بھی  پنشن کی قلت کا رونا  نہیں روتے جس کا ذکر وہ بار بار اپنے خطوط میں کرتے ہیں۔یہی نہیں اگر کسی شاعر کے اشعار پر سب سے زیادہ پینٹنگس بنائی گئی ہیں تو وہ مرزا غالب ہیں۔ دنیا بھر میں اردو کی بے شمار دکانیں غالب کے نام پر چل رہی ہیں اور ہزاروں گھروں کے چولہے انہیں کے نام کی کمائی سے روشن ہیں۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ان کی مقبولیت زمان ومکاں سے ماوریٰ ہے۔

کوٹھوں سے یوٹیوب تک

عہدغالبؔ میں فوٹو گرافی عام نہیں تھی۔ ہندوستان میں پہلے پہل کیمرہ آیا تو جن لوگوں کی تصویریں بنائی گئیں، ان میں آخری مغل تاجدار بہادر شاہ ظفرؔ کے ساتھ مرزا بھی شامل تھے۔ جب اردو پریس تک کم لوگوں کی رسائی تھی تب مرزا کا دیوان پرنٹنگ پریس سے شائع ہوا جسے ان کے قریبی دوست مولانا فضل حق خیرآبادی نے منتخب کرکے ترتیب دیا تھا۔یہ مقبول ہوا اور موضوع بحث بھی بنا۔ اسی طرح ان کے دور میں گانے بھی رکارڈ نہیں ہوتے تھے بلکہ اہل ذوق نغموں سے محظوظ ہونے کے لئے ارباب نشاط کے کوٹھوں کا رخ کیا کرتے تھے۔ تب لاہور سے لکھنو تک اور کلکتہ سے حیدرآباد تک کے کوٹھوں پر غالب کی غزلیں گونجاکرتی تھیں۔

awaz

ہندوستان کی پہلی جنگ آزادی1857 کی ایک اہم مجاہدہ عزیزن تھیں۔ یہ ایک رقاصہ اور مغنیہ تھیں اور ان کا کوٹھا کانپور میں حریت پسندوں کی آماجگاہ تھا۔ روایات شاہد ہیں کہ عزیزن بائی، امیرخسرو سے لے کر غالب تک کی غزلیں اورکبیر سے لے کر میرا تک کے بھجن  انتہائی فنکارانہ مہارت سے گاتی تھیں۔  ظاہر ہے کہ وہ ملک کی اکلوتی مغنیہ نہیں تھیں جوغالب کو گاتی تھیں۔

خودمرزاغالب نہ صرف موسیقی اور اہل موسیقی سے تعلق خاطر رکھتے تھے بلکہ اکثر اس دشت کی سیاحی بھی کرتے رہتے تھے۔ انہوں نے ایک خط میں ایک ’ڈومنی‘ کا ذکر بھی کیا ہے۔

awaz

 ہندوستان میں بیسویں صدی کے آغاز کے ساتھ ہی گانوں کی رکارڈنگ کادور شروع ہوا تو پہلا نام جو پورے برصغیر کے افق موسیقی پر ابھرا، وہ گوہرجان کا تھا۔ انہوں نے ٹھمری، دادرا کے ساتھ غزلیں بھی گائیں مگر افسوس کہ ان کی غزلوں کے رکارڈ آج محفوظ نہیں ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ انہوں نے جن شاعروں کو گایا، ان میں  مرزاغالب بھی شامل ہیں۔ تب سے آج تک ہزاروں معروف وغیر معروف فنکار غالب کی غزلیں پیش کرچکے ہیں جن میں جگجیت سنگھ ‘ مہدی حسن‘ اقبال بانو‘ فریدہ خانم، ٹینا ثانی‘  نور جہاں ‘ محمد رفیع‘ آشا بھوسلے‘ ،بیگم اختر‘ غلام علی‘ لتا منگیشکر ‘ نصرت فتح علی خان‘ راحت فتح علی خان‘ جیسے بین ا لاقوامی شہرت یافتہ گلوکار بھی شامل ہیں۔  

سنیمامیں غالب

برصغیر میں سینما کا دور شروع ہوا۔ کچھ دن تک خاموش فلمیں چلیں مگر جیسے ہی انہیں قوت گویائی ملی، نغمگی بھی ملی اور پھر 1954 میں فلم ’مرزا غالب‘ آئی۔ ظاہر ہے کہ غالب کی مقبولیت کو بھناکر دولت کمانے کی یہ کامیاب کوشش تھی۔ اس میں اداکار بھرت بھوشن، نے غالب کا کردار نبھایا تھا جب کہ اداکارہ وگلوکارہ ثریا نے ان کی محبوبہ کا  کردار نبھایا تھا اور غالب کی غزلوں کو آواز بھی دی تھی۔

awaz

موسیقی غلام محمدنے ترتیب دی تھی۔ فلم کے ساتھ ساتھ غزلیں بھی عوامی طور پر خوب مقبول ہوئیں۔ سہراب مودی کی ہدایت میں بننے والی فلم ’مرزا غالب‘ کی کہانی سعادت حسن منٹو اور ڈائیلاگ راجندر سنگھ بیدی نے لکھے تھے۔

مرزا غالب کی زندگی پر1961 میں پاکستان میں بھی ایک فلم بنی تھی۔ اس فلم میں پاکستان کے مشہور اداکار سدھیر نے مرزا غالب کا کردار ادا کیا تھا۔ اس کے علاوہ فلم میں اداکارہ وگلوکارہ نور جہاں مرکزی کردار میں تھیں۔

ہندوستان میں جب ٹی وی کا دور شروع ہوا تو دور درشن پر ’مرزا غالب‘ ٹی وی سیریل 1988میں پیش کیا گیا۔ اسے گلزار نے لکھا تھا۔اس میں نصیر الدین شاہ ، مرزا غالب کے کردار میں تھے۔ ان کے علاوہ اداکارہ تنوی اعظمی اور نینا گپتا مرکزی کردار میں تھیں۔

بعد میں بھی دوردرشن پر کئی ڈرامے غالب پر مرکوز پیش ہوئے مگر ان میں بیشتر انتہائی واہیات قسم کے تھے۔ دوردرشن سے یوٹیوب تک بہت سی ڈاکو منٹری فلمیں بھی غالب پر پیش کی گئیں۔

تھیٹرمیں غالب

جس طرح فلموں اور ٹی وی شوز میں غالب کو پیش کیا گیا اور حقیقی و فرضی کہانیوں کو دکھایا گیا، اسی طرح تھیٹر میں بھی غالب کا جلوہ رہا۔ یہاں بھی غالب کے ارد گرد حقیقی اور فرضی کہانیاں پیش کی گئیں۔ 1969 میں ایک کتاب شائع ہوئی ’اردوڈرامہ مرزاغالب‘۔ اسے منجو قمر نے لکھا تھا۔

awaz

غالب پر کل کتنے ڈرامے لکھے اور اسٹیج کئے گئے؟ اس کے اعداد وشمار موجود نہیں ہیں۔ یہ بھی نہیں معلوم کہ کس کس نے اس عظیم شاعر کو موضوع بنایا۔ موجودہ دور میں دہلی کے معروف رنگ کرمی ڈاکٹر ایم سعیدعالم اکثر ملک وبیرون ملک میں غالبیات کے موضوع پر ڈرامے پیش کرتے ہیں۔ ان کے ایک کامیڈی ڈرامہ ’غالب ان نیو ڈیلہی‘ کے علاوہ تمام سنجیدہ قسم کے ہیں اور حقیقی کہانیوں کو پیش کرتے ہیں۔ ان سبھی ڈراموں کے سینکڑوں شوز ہوچکے ہیں۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے پروفیسر دانش اقبال کا تحریرکردہ ایک طنزو مزاح سے بھرپور ڈرامہ ’اینٹی سوشل غالب‘ متعدد بار دہلی میں پیش کیا گیا جسے ناظرین سے سراہا۔

بنگلور میں قائم کٹھ پتلی تھیٹر گروپ کے بانی ظفر محی الدین بھی ’ذکر غالب‘ کے ٹائٹل کے ساتھ ایک میوزیکل ڈرامہ اسٹیج کرتے ہیں جس میں غالب کی غزلوں اور خطوط کو پیش کیا جاتا ہے۔ہندوستان کے علاوہ پاکستان میں بھی غالب پر شوز پیش کیے جاتے رہتے ہیں اور دونوں ملکوں میں وہ برابر مقبول ہیں۔

’اعتراف غالب‘کے ٹائٹل سے ایک ڈرامہ عزیز قریشی بھی پیش کرتے رہے ہیں۔جب کہ ’غالب کے خطوط‘ اکانت کول پیش کرتے رہے ہیں۔

غالب اور مصوری

awaz

جس طرح غالب کوگانے والوں نے خوب شہرت پائی اسی طرح ان کے اشعار پر پینٹنگس بنانے والوں کی بھی دنیا بھر میں خوب پذیرائی ہوئی۔ ’مرقع چغتائی‘ اصل میں ’دیوانِ غالب‘ کی مصورانہ پیشکش ہے۔ یہ کارنامہ فنکار اے آر چغتائی(عبدالرحمٰن چغتائی) نے انجام دیا اور اس کی بدولت بین الاقوامی سطح پر شہرت حاصل کی۔ چغتائی، لاہور سے تعلق رکھنے والے ایک مصور تھے، جو مغل مصوری اور خطاطی کے اسلوب کے لئے جانے جاتے تھے۔

awaz

پروفیسر ڈاکٹر جیوتیکا سہگل نے2021 میں مرزا غالب کے اشعار پر مبنی کچھ پینٹنگس پیش کیں جسے دہلی کے اہل ذوق نے سراہا۔ انہوں نے جن اشعار کو بنیاد بناکرتصویریں بنائی تھیں، ان میں شامل تھے

آہ کو چاہئے اک عمر اثر ہونے تک

ہزاروں خواہشیں ایسی کی ہر خوایش پہ دم نکلے

دل ناداں تجھے ہوا کیا ہے؟

غالب کے اشعار پر مصوری کرنے والوں میں صادقین بھی شامل تھے۔ انہوں نے بھی کئی تصاویربنائیں جنھیں پسندکیا گیا۔

awaz

ان دنوں کئی ایسی پینٹنگس لاکھوں روپے میں آن لائن فروخت ہورہی ہیں جو غالب پر مبنی ہیں۔ ایسی ہی ایک پینٹنگ پریت جونیجا کی ہے جس کی قیمت تقریباً دو لاکھ روپئے ہے۔