آزادی کے 75سال: حکومت کی ذمہ داریاں

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 15-08-2021
آزادی کے 75سال
آزادی کے 75سال

 

 

awazurdu

ایم ودود ساجد

ہمارا عظیم ملک اپنی آزادی کی 75ویں سالگرہ منارہا ہے-غیر متحرک قوموں کیلئے آزادی کے 75سال کچھ نہیں ہوتے۔لیکن ہندوستان جیسی متحرک قوم کیلئے یہ عرصہ بہت ہوتا ہے۔اس عرصہ میں ہم نے بہت کچھ حاصل کیا اور انگریزوں کے پنجہ استبداد سے نکل کر ہم خود اپنے پاؤں پر کھڑے ہوگئے۔ہم نے پوری دنیا کو دکھادیا کہ جب لوگ من حیث القوم کھڑے ہوتے ہیں توتضادات میں بھی ایسا حسین امتزاج ابھر کر سامنے آتا ہے کہ پوری دنیا ہم پر رشک کرتی ہے۔

 اس وقت ملک میں بی جے پی کی حکومت ہے۔وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت والی حکومت کے سات سال پورے ہوچکے ہیں۔یہ آٹھواں سال چل رہا ہے۔ملک میں اقتصادی بہتری کے اقدامات کرنے کیلئے پنڈت جواہر لعل نہرو کے دور کو تاریخی دور قرار دیا جاتا ہے۔ اگر ورلڈ بینک کے ڈاٹا کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ 1961میں جہاں ہندوستان میں فی کس آمدنی 330 ڈالر تھی وہیں 1992میں یہ محض 595 ڈالر فی کس تک پہنچی تھی۔یعنی 30سال میں صرف ڈھائی سو ڈالر کا اضافہ ہوا۔یا یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ محض 1.86 فی صدسالانہ کا اضافہ ہوا۔

 آزادی کی تین دہائیوں کے بعد 1977میں ہرتین میں سے دو ہندوستانی دو ڈالریومیہ سے بھی کم پر گزارا کر رہے تھے۔90کی دہائی میں اس صورتحال میں بہتری آئی۔نرسمہاراؤ کے زمانے میں اقتصادی میدان میں جو عالم گیریت آئی وہ آج تک برقرار ہے۔اس میں کوئی شبہ نہیں کہ آج اقتصادی آزادی کی وسعت نرسمہاراؤ کی مرہون منت ہے لیکن عالمی پیمانے پر برپا ہونے والی وبا نے جو اتھل پتھل مچائی ہے اس کے بعداقتصادی پائیدان پر ٹکے رہنا کسی کمال سے کم نہیں ہے۔1992سے 2019تک فی کس آمدنی کی شرح نمو 5فیصد سالانہ کے حساب سے بڑھتی رہی۔

۔ 2019میں پوری دنیا کے ساتھ ہندوستان بھی عالمی وبا کورونا سے متاثر ہوا۔حکومت نے اپنے طورپر کافی کوششیں کیں لیکن ہندوستان کی سماجی ساخت کچھ اس طرح کی ہے کہ یہاں ابتدا میں وہ احتیاط نہ ہوسکی جو اس وبا سے لڑنے کیلئے مطلوب تھی۔نتیجہ یہ ہوا کہ ہندوستان میں دو سال میں دو مرتبہ فقیدا لمثال قسم کا لاک ڈاؤن لگانا پڑا۔اس لاک ڈاؤن نے ہزاروں لاکھوں روزگار تباہ کردئے۔لاکھوں لوگوں کی نوکریاں چلی گئیں۔غیر ملکوں میں کام کرنے والے بہت سے لوگ واپس لوٹ آئے۔کورونا سے متاثر ہونے والے ہزاروں لوگ اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔ان میں سے بہت سے وہ تھے کہ جو اپنے گھراور خاندان کے واحد کمانے والے تھے۔ایسے میں حالات بہت زیادہ خراب ہوگئے۔

 ورلڈ بنک کی رپورٹ بتاتی ہے کہ 2011میں ہندوستان میں غربت 22فیصد تک نیچے آگئی تھی۔2019کی رپورٹ حوصلہ افزاء ہے جہاں غربت میں کمی کی شرح 10فیصد تک آگئی ہے۔ظاہر ہے کہ اس بہتر صورتحال کا سہرا موجودہ حکومت کے سر جاتا ہے۔قدرتی وبا کے باوجود اگر ہندوستان اقتصادی میدان میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کر رہا ہے تواس کا کریڈٹ موجودہ حکومت کے کچھ سخت اقدامات کو دیا جانا چاہئے۔گوکہ بعض محاذ پر اس حکومت نے کچھ تکلیف دہ اقدامات بھی کئے ہیں تاہم مجموعی طورپر جائزہ لیاجائے تو صورتحال زیادہ خراب نہیں ہے۔عالمی وبا کے سبب ہندوستان کو اقتصادی نقصان پہنچا لیکن لبرلائزیشن کے سبب عدم استحکام کی صورتحال پیدا نہیں ہوئی۔

 اس میں کوئی شبہ نہیں کہ عالمی وبا کے علاوہ نریندرمودی حکومت کو کئی گھریلومحاذ پر امتحانات اور آزمائشوں کا سامنا کرنا پڑا۔لیکن یہ حکومت لوک سبھا میں اپنی مضبوط پوزیشن کے سبب تمام محاذوں پر قابو پاتے ہوئے آگے بڑھ رہی ہے۔مودی جو ٹھان لیتے ہیں وہ کرکے ہی دم لیتے ہیں۔سچی بات یہ ہے کہ حکومت نے اپوزیشن کو بھی بے اثر کردیا ہے۔لیکن ہندوستانیوں کو درپیش مسائل کا یہ حل نہیں ہے۔بی جے پی کو یہ بات سمجھنی ہوگی کہ ہندوستان کو محض اقتصادی محاذ پر آگے بڑھانے سے کام نہیں چلے گا۔یہاں کا سماج اس قدر متنوع ہے کہ اسے کسی ایک رنگ میں رنگنا ممکن ہی نہیں ہے۔درجنوں ریاستوں کی اپنی زبانیں‘اپنی بولیاں اور اپنی تہذیبیں ہیں۔ان سب زبانوں‘بولیوں اور تہذیبوں کو ختم کرکے انہیں ایک زبان‘ایک بولی اور ایک تہذیب میں باندھ کر نہیں رکھا جاسکتا۔

 ہندوستان کی 75ویں سالگرہ کے موقع پر اپنے وزیر اعظم سے چند گزارشات بہت ضروری ہوگئی ہیں۔2014میں آپ کی حکومت ملک بھر میں کانگریس سے ناراضگی کے سبب وجود میں آئی تھی۔اس ملک کا مسلمان بھی کانگریس کے مسلسل دس سال کے اقتدار سے بہت پریشان تھا۔سینکڑوں نوجوانوں کو پکڑ پکڑ کر جیلوں میں بند کردیا گیا اور ان پر دہشت گردی کا لیبل لگاکر ہزاروں خاندانوں کی زندگیاں برباد کردی گئیں۔کانگریس نے ان کی اقتصادی ابتری کو دورکرنے کا کوئی پلان نہیں بنایا۔ایسا لگتا ہے کہ کانگریس نے مسلمانوں کو مزید ذلیل کرنے کے لئے سچر کمیٹی قائم کی اوراس کا جو نتیجہ آیا ملک بھر میں اس کی خوب تشہیر کی گئی۔بتایا گیا کہ اس ملک کا مسلمان دلتوں سے بھی بدتر حالت میں ہے۔

 وزیر اعظم صاحب! یہ بات درست ہے کہ آپ کے دور اقتدار میں ملک میں اور خاص طورپر یوپی میں کہیں کوئی بڑا فرقہ وارانہ فساد نہیں ہوا۔لیکن یہ بات بھی درست ہے کہ 2014سے 2019تک ملک بھر میں پھیلے ہوئے مٹھی بھر شرپسندوں نے رام اور گائے کے نام پر درجنوں بے قصور لوگوں کو موت کے گھاٹ اتارا۔پولیس نے ان کے خلاف کوئی سخت کارروائی نہیں کی۔وزیر اعظم صاحب! آپ نے ماب لنچنگ کے خلاف بیان جاری کیا لیکن اس وقت تک بہت دیر ہوچکی تھی۔اس کے باوجود لنچنگ کا سلسلہ جاری رہا۔نوٹ بندی کے نتیجہ میں ملک میں جو ماحول بنا اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ 2019میں آپ کی حکومت واپس نہیں آئے گی۔لیکن تمام تر اندازے اور پیش قیاسیاں غلط ثابت ہوئیں اور آپ کی حکومت پہلے سے بھی زیادہ طاقت کے ساتھ واپس آگئی۔یعنی اتنا تو طے ہوگیا کہ آپ کی انفرادی مقبولیت میں کوئی کمی نہیں آئی۔ہرچند کہ آپ نے اقلیتوں کے خلاف کوئی ایک بیان بھی نہیں دیا لیکن شرپسندوں کے حوصلوں میں کوئی کمی نہیں آئی۔

 ہم جیسوں نے یہاں تک کہا کہ یہ مٹھی بھر شرپسند آپ کی حکومت کو بدنام کرنے کے لئے ایسی حرکتیں کر رہے ہیں لیکن نہ ان پر کوئی فرق پڑا اور نہ ہی پولیس نے ان کے خلاف کوئی موثر کارروائی کی۔یہی نہیں بلکہ آپ کی پارٹی کے کچھ سینئر لیڈروں نے ایسے عناصر کی حوصلہ افزائی تک کی۔ایسے میں ہندوستان کے کمزور اور اقلیتی طبقات کے اندر خوف وہراس پیدا ہوگیا۔اب سوال یہی ہے کہ اگر آزادی کے 75سال بعد بھی ملک کا اتنا بڑا طبقہ ایک چھوٹے سے گروہ سے خوف ودہشت میں مبتلا ہے تو ان کے لئے آزادی کے کیا معنی ہیں؟

پچھلے دنوں آر ایس ایس کے سربراہ ڈاکٹر موہن بھاگوت نے ایک کتاب کا اجراء کرتے ہوئے چار باتیں ایسی کہی تھیں کہ جنہیں آر ایس ایس اور مسلمانوں کے حوالہ سے تاریخی قرار دیا جاسکتا ہے۔انہوں نے کہا تھا کہ ہم سب کا ڈی این اے ایک ہے‘جو مسلمانوں کو یہاں سے بھاگ جانے کو کہتا ہے وہ ہندو نہیں ہے‘جو ماب لنچنگ کرتے ہیں وہ ہندوتو کے خلاف کام کرتے ہیں اور یہ کہ مسلمانوں کو ترقی میں شامل کئے بغیر ہندوستان کا تصور بے معنی ہے۔اس بیان کا ہندوستانی مسلمانوں نے کھلے دل سے خیر مقدم کیا تھا۔اس حوالہ سے آر ایس ایس اور مسلمانوں کے درمیان مکالمہ کو آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔لیکن مکالمہ امن کی حالت میں آگے بڑھتا ہے۔شرپسندوں نے جو حالات پیدا کردئے ہیں ان میں مکالمہ کے کوئی معنی نہیں ہیں۔

چند مٹھی بھر عناصر مسلسل ماحول کو خراب کرنے آمادہ ہیں۔دہلی سے لے کر یوپی تک ہر جگہ یہ شرپسند سر اٹھارہے ہیں۔ان کی سرکوبی کے لئے موثر اقدامات کی سخت ضرورت ہے۔وزیر اعظم صاحب! یہ عناصر تو آپ کو ہی للکار رہے ہیں۔پوری دنیا میں اور خاص طورپر عرب دنیا میں آپ کی خوب پزیرائی ہوئی ہے۔آپ کی شبیہ ایک قد آور عالمی رہ نما کی بن رہی ہے۔لیکن یہ واقعات اور یہ چند عناصر اس شبیہ کو داغدار کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ان پر قدغن لگانا بہت ضروری ہے۔جب تک سماج میں ایسے عناصر بے خوفی کے ساتھ گھومتے رہیں گے۔ہندوستانیوں کی اکثریت آزادی کے ساتھ چین کی سانس نہیں لے سکے گی۔

 یہ آزادی بڑی قربانیوں کے بعد ملی ہے۔اس آزادی کو باقی اور برقرار رکھنا بہت ضروری ہے۔یہ ملک امن پسندوں کا ہے۔یہاں شرپسندوں کو اقتدار نہیں مل سکتا۔لیکن اگر وہ بے خوفی کے ساتھ سر اٹھارہے ہیں تو اس کا جائزہ لیا جانا چاہئے کہ کہیں ملک دشمن طاقتیں تو ان کی پشت پناہی نہیں کر رہی ہیں؟ اگر ان کا راستہ بند نہ کیا گیا تووہ خود آپ کے لئے بھی مشکلات کھڑی کردیں گے اور مشکل سے کمائی گئی آزادی کی یہ دولت ہاتھ سے چھن جائے گی۔ آپ نے تمام تر مشکل حالات میں قوم کا جو اعتماد جیتا ہے اس نے آپ کے کاندھوں پر بڑی بھاری ذمہ داری بھی ڈال دی ہے۔20کروڑ مسلمان آپ سے کچھ امید لگائے ہوئے ہیں۔