عالمی یوم آب:پانی کی اہمیت اوراسلامی تعلیمات

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 22-03-2021
پانی اور اسلامی تعلیمات
پانی اور اسلامی تعلیمات

 

 

سلمان عبدالصمد ۔  نئی دہلی

 پانی قدرت کا وہ حسین تحفہ ہے جو نہ صرف فقط انسانوں کے لیے مخصوص ہے بلکہ نباتات،جمادات اورحیوانات کی بقا کے لیے بھی پانی ایک لازمی چیز ہے۔پانی کے بغیر دنیا کی خوبصورتی اور رنگینی کا تصورکیا جاسکتاہے اور نہ ہی انسانی وجود کا۔ تاہم غلط استعمال کی وجہ سے پانی کی قلت کے خطرات منڈلا رہے ہیں۔ پانی پر ناجائز قبضے بھی ہورہے ہیں۔ پانی کا مسئلہ جہاں ہندوپاک کے درمیان ایک اہم موضوع ہے، وہیں دریائے نیل کی وجہ سے ترکی ، مصر اوردیگر ممالک کے درمیان ایک عجیب وغریب صورتحال پیدا ہوگئی ہے۔ زمانہ شناس لوگ تسلیم کرتے ہیں کہ پانی کے معاملات پر ہی تیسری عالمی جنگ برپاہوسکتی ہے۔ اس کے علاوہ زمین سے پانی کی سطح دور ہونے سے متعدد خدشا ت پیدا ہورہے ہیں۔ الغرض پانی کی قلت انسانی سماج کے لیے تشویشناک ہے ۔یہی وجہ ہے کہ 22مارچ 1993 سے ’’عالمی یوم آب‘‘ منایا جاتا ہے جس میں پانی کے فوائد ، اس کی قلت، میٹھے پانی کے حصول اور اس کے تحفظ پر غور وفکر کیا جاتا ہے۔ لفظ پانی دراصل سنسکرت سے ماخوذ ہے۔ انگریزی میں’ واٹر‘، فارسی میں’ آب‘ اور عربی میں’ ماء‘ کہاجاتا ہے۔ ایک سروے کےمطابق زمین کا 70.9 حصہ پانی سے گھرا ہوا ہے۔ ارسطونے اس کائنات کو آگ ، ہوا ، مٹی اور پانی کا مجموعہ قراردیا ہے ۔ ظاہر ہے کہ کائنات کی تشکیل میں پانی کا اہم حصہ ہے ۔

اسلام اور پانی

اسلامی نقطۂ نظر سے دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ انسانی سماج سے پہلے یعنی انسان کی پیدائش کو پانی سے جوڑ دیا گیا ہے۔ خدا نے متعدد مقامات پر فرمایا کہ ہم نے انسان کو پانی کے قطرے سے پیدا کیا ہے ۔ ظاہر ہے کہ یہ وہ پانی نہیں جو ہم پیتے ہیں، بلکہ یہ وہ مخصوص قطرہ ہے جسے’’ مادہ منویہ‘‘ کہا جاتا ہے ۔ قرآن کی سورت نمبر 86، آیت نمبر چھے اور سات میں خدا فرماتا ہے: پھر انسان یہی غور کر لے کہ اس کی پیدائش کس چیز سے ہوئی۔ ایک اُچھلنے والے پانی سے اس کی پیدائش ہوئی جو پیٹھ اور سینے کی ہڈیوں کے درمیان سے نکلتاہے۔‘‘ اسی طرح سورت نمبر 32آیت نمبر 8 میں خدا کے فرمان کا مفہوم ہے ۔’’پھر اس کی نسل ایک حقیر پانی سے چلائی‘‘۔ ان آیتوں کے علاوہ گیارہ ایسی آیتیں ہیں جن میں لفظ ’’ما ء، یعنی پانی‘‘ سے انسانوں کی پیدائش کو جوڑ ا گیاہے۔سمندر کے پانی کی بات کریں توقرآن میں بحریعنی سمندر کا لفظ 32 مرتبہ آیا ہے اور البریعنی خشکی کا لفظ 13 مرتبہ استعمال کیا گیا ہے۔ پھر پانی کے متعلق خدا نے فرمایا’’و انزلنا من السماء مآءً طھورا" (ہم نے آسمان سے پاک و پاکیزہ پانی نازل کیا)۔اس کے علاوہ اسلام میں ’’وضو‘‘ ایک ایسا عمل ہے جس کے لیے پانی ضروری ہے۔ساتھ ہی قرآن میں متعدد مقامات پر ’’کلو ا واشربوا ولا تسرفوا‘‘کا لفظ استعمال کیاگیاہے ، جس کا مطلب ہے کہ کھاو ، پیو اور’’ اسراف‘‘ نہ کرو۔ اسراف کا مطلب بالکل واضح ہے کہ زیادہ خرچ نہ کرو۔ اس جائزے سے یہ بات سمجھ میں آسکتی ہے کہ قرآن میں پانی کے متعلق کیسے کیسے احکامات ہیں۔ قرآن میں پانی، متعدد معنوں میں استعمال کیا گیا ہے ۔ خدا نے انسان کی پیدائش میں پانی کے عمل دخل کو واضح کیا ہے ۔ ساتھ ہی عبادتوں سے پانی کا رشتہ قائم کردیا ہے۔ گویا اسلامی احکامات میں بھی پانی کو بنیادی حیثیت حاصل ہے ۔ اسلام کا یہ نکتہ بھی انتہائی قابل تعریف ہے اس نے پانی کے پس منظر میں لفظ’’طاہر ‘‘ اور ’’مُطہّر ‘‘ کا استعمال کیا ہے۔ ’’طاہر ‘‘ کا مطلب ہے پاک کرنے والا۔ یعنی ایسا پانی جو خود پاک ہے اور اس کے ذریعہ ہم پاکی بھی حاصل کرسکتے ہیں۔ جس سے ہم ناپاکی دور کرسکتے ہیں۔ جب کہ ’’مطہر‘‘ اس پانی کو کہتے ہیں جو خود تو پاک ہے مگر اس سے پاکی حاصل نہیں کی جاسکتی۔اب سوال یہ ہے کہ ’’ طاہر ‘‘ پانی کون ہوسکتاہے ؟ اسلا م نے کہا کہ ا یسا پانی جس میں کوئی ’’رنگ اور بو ‘‘ نہ ہو ۔ یعنی جس پانی میں کوئی رنگ آجائے اور کوئی ’’بو‘‘ پیدا ہوجائے تو وہ پانی پاک تو ہوسکتاہے ، مگر اس سے ہم ناپاکی دورنہیں کرسکتے ہیں۔ ’ اس طرح ہم دیکھیں تو خالص پانی کی اسلام میں کتنی اہمیت ہے ۔ خالص پانی وہ ہے جس میں کسی چیز کی کوئی ملاوٹ نہ ہو ۔ اسلام کے اس نکتے کو سامنے رکھتے ہوئے ہم دنیا میں امن وشانتی کی فضا بھی قائم کرسکتے ہیں۔پانی کی طرح ہمیں صاف اور شفاف بن کر اپنے سماج کے لیے فائدہ مند بن جانا چاہیے۔

حدیث میں پانی بچانے کا حکم

قرآن میں بہت سے مقامات پر اللہ نے ’’ اسراف ‘‘ سے منع کیا ہے۔ ’’اسراف‘‘ دراصل فضول خرچی ہے، چاہے یہ فضول خرچی زندگی جینے میں ہو ،یا کھانے پینے میں ۔ اللہ نے کھانے پینے میں بھی فضول خرچی سے منع فرمایا ہے ۔پینے کے ساتھ قرآن میں اسراف کا لفظ استعمال کیا گیا ہے جس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ پانی بچانے کی تعلیم اسلام میں آج سے بہت پہلے دے دی گئی ہے۔ بہت سی احادیث ہیں جن میں پانی کم خرچ کرنے اور اسے بچانے کی تلقین موجود ہے۔ مسلم شریف کی ایک روایت ہے ’’ا للہ تعالیٰ کو یہ پسند ہے کہ بندہ کچھ کھائے یا پیے تو اس پر اللہ کی تعریف کرے۔کیونکہ پانی اللہ تعالیٰ کی ایک عظیم نعمت ہے۔‘‘۔ ایک دوسری حدیث میں آپؐ نے بہتے ہوئے پانی میں پیشاب کرنے سے منع فرمایا ہے‘‘۔ ( معجم الاوسط للطبرانی: 2/208،حدیث نمبر :1749)اس تناظر میں ایک حدیث یہ بھی ہے ، جو حضرت عبدا للہ بن عمرو بن عاص ؓ سے مروی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم، حضرت سعد رضی اللہ عنہ کے پاس سے گزرے ، جب وہ وضو کررہے تھے۔ آپ ؐ نے انھیں دیکھا کہ وہ کچھ زیادہ پانی استعمال کررہے ہیں ۔ آپ ؐ نے عرض کیا ، اے سعد، یہ اسراف کیسا ؟ اس پر حضرت سعد ؓنے سوال کہ کیا اے نبی ؐ وضومیں بھی اسراف ہے ؟ آپ ؐ نے فرمایا ، ہاں ! اگر تم بہتی ندی پر بھی ہو تو وضو میں اسراف نہ کرو ۔ زیادہ پانی نہ بہاؤ ۔ (یہ حدیث ابن ماجہ کتاب الطھارۃ و سننھا ،بابص ما جاء فی القصد۔۔۔الخ، ج۱، ص254 حدیث: 425 پر موجودہ ہے)۔ اس کے علاوہ بہت سی کتابوں نقل کی گئی ہے ۔

غور وفکر کا پہلو 

قرآن واحادیث میں پانی بچانے اور اسے پاک رکھنے کے متعلق متعدد احادیث موجود ہیں، مگرآج نہ صرف گھروں میں بلکہ عبادت گاہوں میں بھی پانی کی فضول خرچی ہورہی ہے۔ پانی کی ٹوٹیاں کھول کر بہت سے نمازی بات کرنے لگ جاتے ہیں یا پھراپنے ہاتھ اور پیر ملنا شروع کردیتے ہیں ۔اسی طرح ہم عقیدت کے نام پر بہتی دریاؤں میں کیا کچھ نہیں ڈالتے ہیں۔ ظاہر ہے یہ وہ امور ہیں جن پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔دیگر زبانوں کے ادیبوں کے علاوہ اردو ادیبوں نے بھی پانی کے موضوع پر مسلسل لکھنا شروع کردیا ہے۔ ’’ پانی ، ایک خنجر پانی میں، بہاؤ، پانی پر نشان،دامودرداس‘‘ جیسے بہت سے ناول اور افسانے اردو میں شائع ہوچکے ہیں۔ عالمی سطح پر بہت سے ادارے اس کے لیے کام کررہے ہیں۔ ان اداروں کی طرح مذہبی لیڈروں کو بھی پانی کے مسئلے پر محفلیں آراستہ کرنی چاہیے۔کیوں کہ مذہبی محفلوں میں پانی سمیت بہت سے بنیادی یشوز پر غور وفکر کرنے کا رواج نہیں ہے،جب کہ پانی کا مسئلہ زندگی سے جڑا ہواہے۔ قرآن سے منسلک ہے ۔ حدیثوں میں اس کے متعلق احکامات ہیں ۔ کیوں کہ پانی وہ دھوری ہے جس کے ارد گرد ہماری زندگی کی چکی گھوم رہی ہے ۔ (مضمون نگار اسلامیات پر نظر رکھتے ہیں اور انٹر نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف تھیالوجی پلول کے ممبر ہیں)