کشمیری صوفی بزرگ شاہ ظہور کی قوت ارادی

Story by  ایم فریدی | Posted by  Shah Imran Hasan | 1 Years ago
 کشمیری صوفی بزرگ شاہ ظہور کی قوت ارادی
کشمیری صوفی بزرگ شاہ ظہور کی قوت ارادی

 

 

  غلام خواجہ کشمیری، سری نگر

کشمیر کے صوفی بزرگ اور سالک مرحوم حضرت پیر فقیر غلام نبی شاہ ظہور کُبروی ؒ کو اللہ تعالیٰ نے اتنی قوتِ ارادی(Will Power)عطا کی تھی کہ جب سال 1970ءمیں اُن پر 45 سال کی عمر میں فالج کا شدید حملہ ہوا جس نے اُن کا دایاں ہاتھ اور ٹانگ ناکارہ کردی، تو اُنہوں نے ہمت نہیں ہاری اور اپنے دوست و مُرید معروف حکیم و ڈاکٹر غلام مصطفی پنگلنہ کو علاج و معالجے کے لئے اپنی بیگم اور چھوٹے فرزند ، جو اُس وقت فقط چھ سال کا تھا روانہ کیا۔ حکیم صاحب دوڑتے دوڑتے آئے اور شاہ ظہور کو دیکھ کر چِلّا کر کہاکہ ” میں اللہ سے قلندر ظہور صاحب کی قوتِ گویائی اور ٹانگ واپس لوں گا مگر ہاتھ نہیں“اور تامرگ شاہ ظہور کا علاج کرتے رہے۔

شاہ ظہور جو سرینگر سے شائع ہونے والے روزنامہ آفتاب اور سرینگر ٹائمز سمیت مختلف موقر اخبارات میں بحثیت کاتب کام کرکے رزقِ حلال کماکر اپنے نو نہال عیال کو پالتے تھے۔ مرحوم نے بائیں ہاتھ سے لکھنے کے علاوہ روزمرہ زندگی کے ضروری کام کرنے شروع کئے۔ انہوں نے بائیں ہاتھ سے ہی کئی چھوٹی بڑی کتابیں تحریر کیں،جن میں کشمیری صوفی شاعری کے علاوہ طوطی ہند حضرت ابوالحسن امیر خسرو ؒ کی فارسی زبان میں قصہ چہار درویش اور سُورة یُوسف کا کشمیری منظوم ترجمہ شامل ہے۔

مقناطیسی شخصیت کے مالک ، حلیم، نرم مزاج اور خوش گُفتار شاہ ظہور نے صوفی شاعری کرنے کے ساتھ ساتھ پلوامہ میں ” محفلِ بہارِ ادب شاہورہ“ کے نام سے ایک ادبی انجمن کی بنیاد بھی ڈالی۔ جس کے بینر تلے مختلف ادبی، روحانی اور سماجی مجالس اور محفلوں کا انعقاد ہوتا تھا۔ دیکھتے دیکھتے اس ادبی انجمن نے ایک تربیت گاہ(Institution) کی شکل اختیار کی اور آج ضلع پلوامہ کے بیشتر ادیب، شاعر، قلمکار اور دیگر کئی شخصیات اپنے آپ کو اسی انجمن کی پیداوار جتلاتے ہیں۔ مرحوم شاہ ظہور نے اسی پر بس نہیں کیا، اپنے آبائی گاﺅں تملہ ہال کو مرکز بناکر انہوں نے تواریخی علاقہ شاہورہ پر تواریخ قلمبند کرنے کا ارادہ ظاہر کیا۔ علاقے کی معزز، ذِی حِس اور ذی شعور شخصیات نے اُن کے قوتِ ارادی ، سوچ اور جذبے کو سلام پیش کرتے ہوئے ہر طرح کی سہولیات میسر رکھتے ہوئے خادم بھی پیش کئے۔وقت کے افسران نے بھی از خود اُن کے جذبے کو دیکھکر سرکاری خدمات دستیاب رکھیں۔

awazthevoice

فالج زدر قلندر شاہ ظہور لاٹھی کے سہارے ایک گاﺅں سے دوسرے گاﺅں اور ایک قصبہ سے دوسرے قصبہ بس یا ٹانگے پر سفر کرتے ہوئے ادبی و روحانی مجالس کا انعقاد کرتے تھے اور عوام کی آنکھوں کا تارا بن گئے۔اس عرصے کے دوران اُن کی عظمت اور شہرت سُن کر کئی معروف شخصیات اُن کے دوست، رفیق اور مرید بن گئے، جن میں حکیم ڈاکٹر غلام مصطفی پنگلنہ، ماسٹر غلام مصطفی ملک تملہ ہال، ڈاکٹر اومکار ناتھ واسورہ، ایڈوکیٹ اومکار ناتھ ترچھل، سادھو جیا لال ترچھل، حمید اللہ لون آری بل ، محمد شفیع فگار آری بل،مُحبِ اولیاءوَ خدام فقراءخواجہ محمد اکرم گنائی ٹہاب وَ خواجہ ولی محمد الائی ترچھل، روحانی شخصیات سید مبارک شاہ گیلانی فطرتؒ وَ حضرت سید محمد سعید حقانی، سابق ڈائریکٹر دُور درشن سرینگر فاروق نازکی وَ منظور الحق، معروف براڈکاسٹر و قلمکار عبدالاحد فرہاد، سابق سیکریٹری کلچرل اکیڈیمی محمد یوسف ٹینگ، ڈاکٹر علی محمد میر مصدر پانپور، صوفی برزگ و شاعر رجب حامد، عبدالاحد زرگر، سابق وزیر اعلیٰ مرحوم سید میر قاسم، سابق ممبرانِ اسمبلی غلام حسن مسعودی پانپور وَ غلام قادر وانی نیلورہ، صوفی عاشق نگینی اور کشمیر کے ثقافت شناس حسرت گڈا قابلِ ذکر ہیں۔

سالک شاہ ظہور نے مسکینی اور غربت میں اپنی زندگی کے آخری سال گُزارے اور اُن کے چہرے پر غصہ یا ملال کی پرچھائی بھی نظر نہیں آئی تھی۔ وہ ہر ایک سے محبت ، شفقت اور نرم گفتاری سے پیش آتے تھے۔ درویش شاہ ظہور نے فالج کے بعد 1970ءسے وصالِ یکم مارچ 1982ءتک یعنی 12 سال اپنے آپ کو بہت متحرک رکھا۔ وہ جہاں آل انڈیا ریڈیو سرینگر، دُور درشن کیندر سرینگر اور جموں و کشمیرکلچرل اکیڈیمی کی طرف سے منعقدہ مشاعروں اور دیگر تقاریب و پروگراموں میں شرکت کرتے تھے، وہیں درگاہوں اور خانقاہوں پر متواترحاضری دیتے نظر آتے رہے۔ صوفی گھرانے کے چشم و چراغ شاہ ظہور بیک وقت کشمیر کے دو صوفی بزرگوں حضرت سید محمد سعید حقانیؒ اور عبدالاحد زرگر سے بیعت تھے۔

شاہ ظہور کی قوتِ ارادی اور کچھ کرنے کا عملی نمونہ یہ بھی ہے کہ انہوں نے فالج کی بیماری کا مریض ہونے کے باوجود دِن رات بائیں ہاتھ سے لکھنا جاری رکھا۔ وہ رات کو عبادت میں اور دِن کو لکھنے، مُلاقیوں سے گفتگو اور حاجت روائی میں مصروف رہتے تھے۔ اُن کے بائیں ہاتھ کی تحریر اتنی خوب صورت اور دلکش ہے کہ پاکستان کے مختلف شہروں کے علاوہ اجمیر، دہلی اور حیدر آباد میں بعض کتب خانوں ،لائبریریوں اور خانقاہوں کے منتظمین نے اُن کے قلمی نسخوں کے فوٹو اسٹیٹ تبرّکاً اپنے یہاں محفوظ رکھے ہیں۔

ہرفن مولا شاہ ظہور کو مادری زبان کشمیری کے علاوہ اردو، فارسی، عربی اور پنجابی زبان پر دسترس تھی۔ عارف باللہ شاہ ظہور یکُم مارچ 1982ءبروزِپیر فجر کے وقت کلمہ توحید پڑھتے ہوئے 57سال کی عمر میں وصال کرگئے۔ وہ اپنے آبائی قبرستان تملہ ہال پلوامہ میں معروف ولی کامل حضرت سید محمد جعفر کُبرویؒ کی نشست گاہ کے پہلو میں سپردِلحد کئے گئے۔ شاہ ظہور کی قوتِ ارادی اور جذبہ ایثارنئی نسل کے لئے ایک مشعلِ راہ ہے۔