چندر سنگھ گڑھوالی نے اپنے ہندوستانی مسلمان بھائیوں پر گولی نہیں چلائی

Story by  ایم فریدی | Posted by  Shah Imran Hasan | Date 24-12-2021
چندر سنگھ گڑھوالی نے اپنے ہندوستانی مسلمان بھائیوں پر گولی نہیں چلائی
چندر سنگھ گڑھوالی نے اپنے ہندوستانی مسلمان بھائیوں پر گولی نہیں چلائی

 

 

awazthevoice

 

 ثاقب سلیم،نئی دہلی

 تاریخ کاایک طالب علم جب1857 کی جنگِ آزادی کے بارے میں پڑھتا ہےتوجہاں ایک ساتھ انہیں مختلف قسم کی معلومات حاصل ہوتی ہیں تو وہیں وہ کئی باتوں کے تعلق سے تذبذب کا شکار ہو جاتا ہے۔ مثلاًایسٹ انڈیا کمپنی کے ہندوستانی ملازمین (سپاہی) نے برطانوی حکومت کے خلاف بغاوت کی یا پھرآزاد ہند فوج کی تشکیل سے فائدہ ہوا۔ یہ حقیقت ہے کہ برطانوی راج کے ہزاروں ہندوستانی سپاہیوں نے نیتا جی سبھاش چندر بوس کی آواز پر لبیک کہا اورانگریزحکومت کے خلاف اعلان جنگ کیا۔

انگریزوں کے خلاف لڑنے والے انہی سپاہیوں میں سے ایک چندر سنگھ گڑھوالی تھے، وہ دراصل رائل گڑھوال رائفلز کا حصہ تھے۔انہوں نے آزاد ہند فوج کے قیام میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ مگر افسوس کا مقام ہے کہ ہم سے بہت کم لوگ ان کے بارے میں جانتے ہیں۔ 

چندرسنگھ گڑھوالی پہلی جنگ عظیم کے دوران برٹش انڈین آرمی میں بطور سپاہی شامل ہوئے اور جلد ہی اپنی بہادری کی وجہ سے حوالدار کے عہدے پر فائز ہو گئے۔ 1930 میں جب مہاتما گاندھی نے سول نافرمانی کی تحریک شروع کی تو وہ رائل گڑھوال رائفلز کے ساتھ پشاور میں تعینات تھے جہاں تحریک کی سربراہی خان عبدالغفار خان کر رہے تھے۔ گڑھوالی خان اور اس کے پیروکاروں کے حب الوطنی کے جذبے سے بے حد متاثر ہوئے۔انگریزوں نے 22 اپریل 1930 تک پشاور کے خان عبدالغفار خان اور دیگر سرکردہ رہنماؤں کو گرفتار کر لیا، اس کے باوجود لوگ سول نافرمانی کی تحریک سے جڑے رہے۔ 

ہمیشہ کی طرح غیر ملکی حکمرانوں نے ہندوستانیوں کو ہندوستانیوں کے خلاف کھڑا کرنے کی کوشش کی۔ 22 اپریل کی رات ایک انگریز افسر نے گڑھوالی کے سپاہیوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ پشاور میں کچھ مسلمان پٹھان ہیں، جو ہندوؤں کی دکانوں پر حملہ کر سکتے ہیں، اس لیے وہ اگلی صبح ان پرگولی چلانے کے لیے تیار ہو جائیں۔ چندر سنگھ نے افسر کے جانے کے بعد گڑھوالی کے سپاہیوں کی ایک خفیہ میٹنگ کی اور پوچھا۔کیا کوئی گڑھوالی ایسا کرنے کو تیار ہے؟

اس پر تمام فوجیوں نے متفقہ طور پر جواب دیا کہ وہ اپنے ہم وطنوں پر گولی نہیں چلانا چاہتے۔  یہ وہی جواب تھا جس کی چندر سنگھ کی توقع تھی۔

اس موقع پر انہوں نے ایک تقریر کی جس میں انہوں نے کہا کہ وہ جلیانوالہ باغ، پنجاب میں گورکھا سپاہیوں کی غلطیوں کو نہ دہرائیں اور موپالا، کیرالہ میں گڑھوالی کے فوجیوں کی غلطیوں کو نہ دہرائیں۔ اگلے دن 23 اپریل 1930 کو کیپٹن رکیٹ رائل گڑھوال رائفلز کے 72 سپاہیوں کو اپنے ساتھ پیشاور کے قصہ خوانی بازار لے گیا۔ جہاں پہلے سے بڑی تعداد میں موجود جنگ آزادی کے مجاہدین اپنے رہنماؤں خصوصاً خان عباالغفارخان کی گرفتاری کے خلاف احتجاج کر رہے تھے۔

اس وقت فوجیوں کو حکم دیا، ’گڑھوالیوں، تین راونڈ فائر کرو۔ مگر فوراً چندر سنگھ گڑھوالی نے چیختے ہوئے کہا کہ گڑھوالیوں، گولی نہ چلانا۔

گڑھوالی کے سپاہیوں نے اپنے ہتھیار زمین پر رکھ دیے۔ فوجیوں میں سے ایک اُدے سنگھ نے اپنی رائفل ایک پٹھان کے حوالے کرتے ہوئے کہا کہ بھائی! ہم سب کو مار ڈالو۔

جائے وقوعہ پر موجود برطانوی فوجیوں کی ایک اور ٹکری نے ہندوستانیوں پر فائرنگ کی اور سینکڑوں افراد کو ہلاک کر دیا گیا۔ اس طرح یہ ہندوستانی جدوجہد آزادی کی تاریخ کا سب سے خونی قتل ظہور پذیر ہوا۔ اس دوران اگلے دن پوری گڑھوالی بٹالین کو کورٹ مارشل میں پیش کیا گیا۔

مقدمے کی سماعت کے دوران گڑھوالوں نے عدالت سے کہاکہ’’ہم اپنے غیر مسلح بھائیوں کو گولی نہیں ماریں گے…آپ چاہیں تو ہمیں بندوق سے اڑا سکتے ہیں‘‘۔چندر سنگھ گڑھوالی کو موت کی سزا سنائی گئی جبکہ دیگرسپاہیوں کو قید کرکے جیل بھیج دیا گیا۔ بعد میں ان کی سزا کو کم کر کے عمر قید میں تبدیل کر دیا گیا اورپھر چندر سنگھ گڑھوالی کو11 سال قید بامشقت کے بعد رہا کردیا گیا۔ اپنی رہائی کے بعد، چندر سنگھ مہاتما گاندھی کے ساتھ جدوجہد آزادی میں سرگرم ہو گئے۔اس کے علاوہ وہ نیتا جی سبھاس چندر بوس کی آزاد ہند فوج میں شامل ہوئے اور اس میں اہم کردار ادا کیا۔ 

خان عبدالغفار خان، آزادی اور چندر سنگھ گڑھوالی کی موت کے بعد انھیں خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے دہرادون گئے، جہاں خان عبدالغفار خان نے انھیں 'اپنے لوگوں کا نجات دہندہ' کہا۔

سنہ 1994 میں حکومت ہند نے ان کے اعزاز میں ایک ڈاک ٹکٹ جاری کیا۔ اتراکھنڈ حکومت نے 2008 میں ان کے نام پر ایک میڈیکل کالج بھی قائم کیا،اس کا نام ہے:ویر چندر سنگھ گڑھوالی انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز اینڈ ریسرچ۔

آج لوگ اس عظیم انسان اور ان کے ساتھیوں کو یاد نہیں کرتے جو مذہب یا زبان کی بنیاد پر ہندوستانیوں کے درمیان امتیاز نہیں برتتے تھے۔ جنہوں نے پشتو بولنے والے ہندوستانی مسلمان پٹھانوں پر گولی نہیں چلائی تھی۔ اس دور بھی میں ان کی قربانیوں اوران کے نظریات کو یاد کرنے کی ضرورت ہے۔